جاتاہے، اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ خود اعتمادی سے ان کا سامنا کیجئے ‘اس امرکی کوئی پرواہ نہ کیجئے کہ اس کوشش میں آپ کے قدم کتنی بار لڑکھڑاتے ہیں ۔ثابت قدم رہیے اور اپنی ذات پر اعتماد کا نسخہ آزمایئے ۔
چند بار کے کامیاب تجربوں کے بعد آپ کو زندگی بھر کبھی اس کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔
دینے والا ہاتھ لینے والے سے بہتر ہے:
بچپن میں سب بچوں کو ایک عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر چیز پر ضد کرتے ہیں‘ رو دھو کر ہر چیز کا مطالبہ کرتے ہیں‘ لینے کا جذبہ ان میں اتم ہوتا ہے‘ بخلاف دینے کے جذبے کے۔
اگر اس عادت کو تبدیل نہ کیا جائے تو یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے اور جوانی میں بھی یہ جوں کی توں برقرار رہتی ہے۔
آپ نے دیکھا ہو گا کے گھر میں اگر سب افراد کے مابین کوئی چیز تقسیم کی جائے تو بعض افراد اس تقسیم پر رضا مندگی کا اظہار نہ کریں گے، بلکہ واویلا شروع کر دیں گے کہ مجھے کم ملی‘ فلاں کو زیادہ مل گئی‘ یہ سب بچگانہ فطرت ہے۔
عموماً خواتین اس کا شکار ہوتی ہیں۔ آپ تصورکیجئے کہ قرآن میں اللہ پاک نے آپ کو مردوں سے علیحدہ کر کے یاد فرمایا ہے:
{وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ} (سورۃالطور)
قرآن نے آپ کی پختہ کاری اور سخاوت کی اس صفت کو بیان کیا ہے۔ آپ اس سے کیوں باز آئیں؟
آپ ام المؤمنین حصرت زینب بنت خزیمہؓ کے نقش قدم پر چلیں ۔ یہی آپ کے لیے مشعل راہ ہیں۔
ذہن میں اس تصور کو جگہ دیجئے کہ سرمایہ جمع رکھنے کے لیے نہیں بلکہ لوگوں میں‘ اپنوں میں‘ شہروں میں بلکہ بنی نوع انسان میں‘ تمام مخلوق میں تقسیم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مرحمت کیا ہوا ہے۔ آپ کو ہر وقت یہ فکر لاحق ہو کہ کس طرح دوسروں کی زندگی کو آسودہ‘ خوشحال اور قابل رشک بنایا جائے۔
اپنے جذبات کو پاکیزہ بنایئے‘ اپنا مطمع نظر بہت بلند کیجئے‘ انسانوں سے ہمدردی اور خدمت خلق کی وسعتیں آسمانوں سے بھی زیادہ پھیلاؤ رکھتی ہیں۔ لوگوں کو ظلمتوں سے نکال کر اچھے اور تابناک جذبات کی پیوند