محسوس طور پر اپنے ذہن کی گہرائیوں میں ایک ایسے احساس جرم کی پرورش کرنے لگتی ہیں جو حقیقتاً آپ سے کبھی سرزد ہوا ہی نہیں ۔
اس طرز فکر کی جڑیں در اصل بچپن تک پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔ اگر والدین کا رویہ کسی بچے کے بارے میں انتہاء پسندانہ ہو یا وہ اس کے ساتھ فطری شفقت اور محبت سے پیش نہ آئیں تو بچے کے ذہن میں از خود ایک مجرمانہ احساس پیدا ہوجاتاہے۔وہ سمجھتاہے کہ میری ذات میں ضرور کوئی برائی ہے جس کی وجہ سے ماں مجھ سے پیار نہیں کرتی۔
رفتہ رفتہ وہ اپنے دلی جذبات کے برملا اظہار کی جرأت کھو بیٹھتاہے اور اپنی ذات کے محدود خول میں سمٹ کر کڑھنا شروع کردیتاہے ، عقل مند والدین اس کی نوبت نہیں آنے دیتے ‘اس سے آدمی کی شخصیت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور اپنی فطری دل کشی اور جاذبیت کھو بیٹھتی ہے اور وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔
یہ صورت حال خاصی تشویش ناک ہے، لیکن یقین جانیئے جس طرح آپ کو پرانا لباس بدن سے اتار کر پھینکتے ہوئے کوئی تکلیف نہیں ہوتی یا ذرا سا بھی وقت صرف نہیں ہوتا ، ٹھیک اسی طرح اگر آ پ کوشش کریں تو آپ اس ذہنی قید سے پل بھر میںرہائی حاصل کرسکتی ہیں ۔
جب کبھی آپ کے ذہن میں اپنی کم تری یا کم مائیگی کے احساسات پیدا ہونے لگیں تو انہیں فوراً جھٹک دیں ۔اس مقصد کے لئے آپ کو اپنی پوری صلاحیتیں بروئے کار لانا پڑیں گی۔کیونکہ انسان جونہی ان فاسد خیالات سے پیچھا چھڑانے کے لئے کوئی عملی قدم اٹھانے کا ارادہ کرتاہے ان کی طرف سے مزاحمت شروع ہوجاتی ہے ۔اور یہ اپنے وجود کی بقاء کے لئے ایک خوفناک جنگ کا آغاز کرلیتے ہیں ۔
اس سے انسان کی شخصیت دو مختلف حصوں میں بٹ جاتی ہے ، جسم کا جو حصہ اب تک ان سے فائدہ حاصل کرتا رہا‘ وہ انہیں نکالنے پر آمادہ نہیں ہوتا ، یقین جانیئے… خیالات اور عادات میں کسی قسم کی نمایاں تبدیلی لانا ایک مضبوط دشمن کے خلاف اعلان جنگ کرنے سے کم نہیں ۔ لیکن ایک بار اگر انسان کو اپنی ذات کی صحیح قدر و قیمت اور اہمیت کا احساس ہوجائے تو پھر وہ ان کے مقابلے میں ڈٹ جاتاہے اور آخر کار سرخرو ہوتاہے۔
زندگی میں کئی ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ اچھے بھلے لوگ مایوسی ‘ بد دلی‘ اور پژمردگی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔اپنی ذات پر سے ان کا اعتماد اٹھ