کوئی گلہ نہ ہوتا کیونکہ ہم اس حقیقت کوفراموش نہیں کرسکتے کہ دنیا کے بیشتر علاقوںمیں…غیر مسلم معاشرہ کی تخصیص کے بغیر… اب بھی عورت کے ساتھ بدترین سلوک کیا جاتا ہے۔اس لئے ان تحریکوں یا تنظیموں کو مطلقاً بے فائدہ یا بے مقصد قرار نہیں دیا جاسکتا ۔البتہ جو بات ہمارے پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ اس سلسلہ میں اسلام جیسے مقدس، انسان دوست اور عالمگیر مذہب کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔بات اگر غیروں کی ہوتی تو ان کی فطرت پر محمول کرلیتے لیکن …افسوس صد افسوس…اس گھر کو آگ لگانے والوں میں اپنے پیش پیش رہے :
تیر کھا کے دیکھا کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
اس سلسلہ میںایک کو شش یہ بھی کی گئی کہ اسلام کو اس مسئلہ میں ہمیشہ دفاعی حیثیت میں رکھا گیا ،بہت سے مصنفین نے حقوق نسواں کے حوالہ سے ہونے والے اعتراضات کے جوابات بھی دفاعی سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے دیئے …حالانکہ اسلام اس مسئلہ میں بھی دفاعی درجہ میں نہیں بلکہ اقدامی پوزیشن میں ہے۔اسلام نے عورت کو جو حقوق دیئے ہیں ،بلاشبہ کسی بھی جہت سے ان پر انگشت نمائی کی گنجائش نہیں ہے۔
…………………
اسلام سے پہلے …نہ صرف جزیرہ عرب میں… بلکہ پوری دنیامیں عورت کوایک کم حیثیت، معمولی اور بے وقعت چیز سمجھا جاتاتھا۔
میکسیکو میں پائی جانے والی ’’ازتک‘‘قوم کے لوگ مکئی کے موسم کے شروع میں ایک نوجوان لڑکی کو ذبح کیا کرتے تھے اور پھر موسم کے آخر میں ایک بوڑھی کا سرتن سے جدا کرتے اور اس کی کھال اتار کر قبیلہ کے کاہن کو پیش کردی جاتی تھی جو اس کے اوڑھنے کے کام آتی تھی ۔یہ ساراعمل ڈنکے کی چوٹ پر کیا جاتا اور اس سلسلہ میں کسی قسم کی مصلحت یا مداخلت کو خاطر میں نہ لا یا جاتاتھا ۔
یونانی لوگ عورت کو اس نگاہ سے دیکھتے تھے کہ وہ سراپا شر ہے جو معبودوںکی طرف سے انسانوں پر مسلط کی گئی ہے ۔وہ یہ خیال کرتے تھے کہ عورت کے ظاہری حسن کے فریب میں نحوست اور بدبختی پوشیدہ ہے ۔
براعظم امریکہ میں پائے جانے والے بولیائی قبائل کے لوگ نوجوان لڑکی کو ذبح کرکے اس کے اعضاء کو کھیت میں بنی ہوئی نالیوں میں ڈال