جس آدمی کا نفس قناعت پسندی پر راضی نہ ہو او رپھر اس کے ساتھ ساتھ کچھ مال ومتاع لوگوں کے پاس دیکھ کر حسد بھی کرتا ہو تو یہ قناعت اور سخاوت نہ ہوگی بلکہ یہ عاجزی و محرومی کی علامت ہے ۔ایسے آدمی کی مثال اس گدھے کی سی ہے‘جوبوجھ ہلکا ہونے کی صورت میں تو اونچی جگہوں پر چڑھ جاتاہے ہو،اور مالک کو دوسرے طاقتور اور زیادہ بوجھ اٹھانے والے گدھے کو ترجیح دیتا دیکھ کررنجیدہ ہو جاتاہو۔
یاد رکھئے!قناعت پسندی سے آدمی کا دل اور جسم دونوں پر سکون رہتے ہیں اور برا آدمی دل اور جسم دونوں اعتبار سے اضطراب میں رہتا ہے،اچھا آدمی نفسیاتی اعتبار سے زیادہ صبر کرنے والا اور کمینہ آدمی جسمانی اعتبار سے زیادہ صبر والا ہوتاہے۔
توکل اختیار کیجئے:
قناعت کے باب کے متصل توکل کو ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتاہے۔عقلمند آدمی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ پر توکل اختیار کرے،جس نے تمام مخلوق کے رز ق کی کفالت اپنے ذمے لے رکھی ہے،کیونکہ توکل ہی ایمان کا نظام ہے اور توحید سے قریب تر ہے اور یہ فقر کو دور کرکے راحت پہنچانے کا سبب ہے۔جس کسی نے بھی اللہ تعالی پرصحیح دل سے توکل کیا اس کو اپنے ہاتھ میں موجود مال سے زیادہ اللہ تعالی پراعتماد ہو جاتا ہے اور اللہ تعالی اس کو کسی انسا ن کا محتاج نہیں بناتے ،اور اس کو ایسی جگہوں سے رزق عنایت فرماتے ہیں جس کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔
منصور بن محمد کریزی کے اشعار ہیں :
توکل علی الرحمن فی کل حاجۃ
اردت ، فان اللہ یقضی و یقدر
متی ما یرد ذو العرش امرا بعبدہ
یصبہ و مـــا للعبد ما یتخیر
وقد یھلک الانسان من وجہ امنہ
وینجو باذن اللہ من حیث یحذر
’’اپنی ہر ضرورت میں اللہ پر توکل کیا کر،کیونکہ اللہ تعالی ہی ہے فیصلہ کرنے والا اور قدرت رکھنے والا ہے۔جب عرش والا اپنے بندے کے بارے میں کسی بات کا فیصلہ کر لیتاہے تو وہ اسے پہنچتا ہے اور بندے کو اختیار