ابن زنجی بغدادی کے اشعار ہیں:
اقول للنفس صبرا عند نا ئبۃ
فعسریومک موصول بیسرعند
ما سرنی ان نفسی غیر قانعۃ
وان ارزاق ہذاالخلق تحت یدی
’’مصیبت کے وقت میں اپنے نفس کو تسلی کے لئے کہتا ہوں کہ تیری آج کی مشکل کل کی آسانی سے ملی ہوئی ہے۔ مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ میرا نفس قناعت پسند نہیں اور یہ کہ میرے ہاتھ میں اس ساری مخلوق کا رزق ہے‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ چار چیزوں کا معاملہ طے ہو چکاہے:
۱۔پیدائش ۲۔اخلاق
۳۔رزق ۴۔موت
جب رزق کا معاملہ اللہ کے ہاں مقرر ہے تو اس میں بخل کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟
یاد رکھئے!اللہ پاک کی اپنے بندوں پر جو بڑی بڑی عنایات ہیں ان میں سے ایک قناعت بھی ہے ،رضا ء بالقضاء اور خدا کی تقسیم پر اعتماد سے بڑھ کر کوئی چیز آدمی کو راحت بخشنے والی نہیں۔
اگر قناعت میں اس کے سوا کوئی اچھی خصلت نہ ہوتی کہ اس میں آرام اور زیادہ رزق کے حصول کے لئے بری جگہوں میں داخل نہ ہونا مضمر ہے تو بھی عقلمند کے لئے ضروری تھا کہ وہ کسی بھی حال میں قناعت کو نہ چھوڑے۔
حضرت ابن مبارک ؒ فرماتے ہیں :
’’قناعت کی مروت اختیار کرنا عطا کرنے کی مروت سے بہتر ہے‘‘
امام ابو حاتم ؒ فرماتے ہیں :
’’قناعت دل میں ہوتی ہے،جس کا دل غنی ہو تو اس کے ہاتھ بھی غنی ہو جائیں گے‘جس کا دل فقیر ہو اس کو مالداری سے کوئی فائدہ نہیں مل سکتا۔جو قناعت پسند ہوگا وہ مضطرب بھی نہ ہوگا،بلکہ اس کی زندگی پرسکون ہو گی۔اور جو قناعت پسند نہیں ہوگا اس کے ہاتھ سے جانے والی چیزوں کی انتہاء نہ ہوگی‘‘