ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
لئے یہ زیادہ اسلم ہے کہ کسی کو بھی کچھ نہ کہا جائے کہنے سے تکلیف ہوتی ہے اور تکلیف بھی بے نتیجہ ۔ اس لئے یہ تجویز کیا ہے کہ خود کسی کو نہ کہا جائے وہ پرچہ شائع کر دیا جائے اس پرچہ میں ایسے لوگوں کے نام لکھے ہیں کہ وہ ہر سوال کا جواب دے سکتے ہیں ۔ میرے پرچہ شائع کردیا جائے اس پرچہ میں ایسے لوگوں کے نام لکھے ہیں کہ وہ ہر سوال کا جواب دے سکتے ہیں ۔ میرے نزدیک وہ اس کے اہل ہیں ۔ اور مجھے بھی عام خدمت سے انکار نہیں اور عام خدمت یہی ہے کہ اکثر کچھ نہ کہتا ہی رہتا ہوں تو ہر شخص اس کو اپنے حال پر منطبق کرسکتا ہے ۔ ہر شخص سمجھ کر عمل کرسکتا ہے ۔ پھر مجھ کو خاص طور سے روک ٹوک کرنے کی کیا ضرورت ہے اور قدر دان ہے اس کو انطباق کرلینا کیا مشکل ہے اسی کو مولانا فرماتے ہیں شعر بشنو یداے دوستان ایں داستان ٭ فی الحقیقت نقد حال ماست آں نقد حال خویش راگر پے بریم ٭ ہم ز دنیا ہم زعقبی برخوریم وہ نقد حال ہی مضامین ہیں ۔ غرض ہدایت حاصل کرنے کیلئے وہ بھی بہت جو میں وقتا وقتا بیان کرتا رہتا ہوں ۔ اب یہ کہ ایسا ہی خیال رکھوں جیسے بچوں کا رکھتے ہیں یہ میں کیسے کرسکتا ہوں اور کچھ کرتا ہوں تو مخاطبین میں ایک مرض اور ہے کہ اگر گرفت کی جائے تو سب سے پہلے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ تاویل کریں اور ظاہر کریں کہ تاویل کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہماری کچھ خطا نہیں ۔ سوا اگر تمام عمر تاویلات کو قبول کرلیا جایا کرے تو اس معنی یہ ہیں کہ تمام عمر سے کوئی غلطی ہوئی ہی نہیں ۔ حالانکہ بہت سی باتوں کا تکلیف دہ ہونا بالکل ظاہر ہے ۔ چنانچہ اس کا معیاریہ کہ ان کے ساتھ وہی کوئی دوسرا برتاؤ کرے ۔ جو انہوں نے کسی سے کیا ہے ۔ تب تکلیف معلوم ہو اور جو یہ تاویل کرتے ہٰیں ۔ وہی تاویل کوئی ان کے ساتھ کرئے تب معلوم ہو کہ کیا اثر ہوتا ہے اور گو کہتا ہوں مگر گراں ضرور گزرتا ہے ۔ کیونکہ میرا بھی توجی چاہتا ہے کہ اللہ اللہ کروں سارے دن یہی شغل کھوں پھر خوف رہتا ہے کہ میں بھی بشر ہوں زیادتی بھی ہوجاتی ہے ۔ اس لئے بہت مشکل قصہ ہے اس قصہ سے کلفت ہوتی ہے طبیعت پر طبیعت ضعیف ہے کہنے کے بعد یہ خیال ہوجاتا ہے کہ میں دوسرے عنوان سے بھی تو کہہ سکتا تھا ۔ یہ عنوان خشک کیون اختیار کیا ۔ اور ایسی باتوں پر بلکل صبر تو آسان ہے مگر یہ دشوار ہے کہ کہا جائے اور لب ولہجہ متغیر نہ ہو ۔ گو منشا میرے غصہ کا شفقت ہی ہے اسی لیے ان پر ہوتا ہے جن سے تعلق ہے باقی ۔ جن لوگوں سے کوئی تعلق نہیں وہ خوش اخلاق سمجھتے ہیں ۔ کیونکہ ان کو کچھ کہنا ہی نہیں پڑتا ۔ اور جن سے تعلقات ہیں وہ بد اخلاق کہتے ہیں ۔ اور میں اکثر جگہ دیں دیکھتا ہون کہ اپنے لوگوں کی تو رعایت کی جاتی ہے اور غیروں سے روکھا ۔