ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
واقعہ: دیوبند کے مدرسہ کا ذکر تھا اس پر فرمایا ۔ ارشاد : تہزیب وہاں کے رہنے والے طلبہ کا حصہ ہے میں نے کہیں کے طلبہ ایسے مودب نہیں دیکھے گو اس کی وہاں عملی تعلیم نہیں ہوتی ۔ مگر وہاں کا یہ اثر ہے جو وہاں کے بزرگوں کا طرز ہے وہ مورث سا ہوگیا ہے برکت چلی آتی ہے وہاں کے تعلیم یافتوں کے انداز سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ وہاں کے تعلیم یافتہ ہیں عرفی نے کہا ہے ۔ ہر سوختہ جانے کہ بہ کشمیر در آمد ٭ گر مرغ کباب ست کہ بابال وپر آید وہاں کی خاصیت ہی ہے مجھے اگر حضرت حاجی کا حکم تھانہ بھون رہنے کا ہوتا تو میں دیوبند رہتا مگر یہ ضرور ہے کہ وہاں تنہائی میسر نہ ہوتی قصبہ ( تھانہ بھون ) کے لوگ معتقد تو نہیں محب ہیں اس لئے لوگ مجھ کو لپٹتے نہیں دیوبند میں یہ میسر نہ ہوتا ۔ واقعہ : ایک اجازت یافتہ کے زاہد محنتی مخلص ہونے کا ذکر تھا اس پر حضرت والا نے فرمایا ۔ ارشاد : وہ تو دوا نہیں کرتے نعمتیں نہیں کھاتے مگر ہمارا مسلک یہ ہے کہ انڈا کھاؤ مرغی کھاؤ مرغن کھانے کھاؤ اور کام کرو ۔ شرارت کے قصد سے مت کھاؤ ۔ خدا کی نعمت کو برا تو اگر سامان دے استعمال کرو ۔ خدائے تعالٰی کی نعمت برتنے سے منعم کی محبت بڑھتی ہے ۔ ہمیں راحت پہنچتی ہے تو محبت ہوتی ہے ۔ اگر راحت برت کر محبت ہو ۔ اور اس کے بعد کلفت بھی ہوتو اس میں بھی راحت ہوتی ہے ۔ خوب کھاؤ پیو جتنا خدائے تعالٰی دے مگر کھانے پینے کے بندے نہ بنو اس فکر میں مت رہو کہ پشاور سے چاول آنے چاہئیں ۔ فلاں جگہ سے یہ چیز آنی چاہئے لیکن اگر خدائے تعالٰی دے تو کیوں نہ استعمال کرے کیوں احتراز کرے میں نے ان سے کہا کہ آپ کم کھاکر ضعیف ہوجائیے گا ویسے تندرست ہیں مگر ان کی صحت اچھی نہیں ہے مگر ہیں بڑے مستعد برکت بھی ہے ان کے وقت میں محنتی ہیں کسی کام سے انکار ہی نہیں ہے اچھے آدمی ہیں ۔ اللہ تعالٰی کا یہ مجھ پر انعام ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے وہ نعمت یہ ہے کہ میرے سب احباب مجھ سے افضل ہیں ۔ ورنہ مستفیدین کم درجہ میں ہوتے ہیں مستفاد منہ سے میرے یہاں مستفیدین بڑھے ہوئے ہیں افضل ہوکر پھر اتباع کرتے ہیں یہ بڑی بات ہے جیسا حضرت مرزا جان جاناں فرمایا کرتے تھے ۔ کہ اگر مجھ سے قیامت میں سوال ہوا کہ دنیا سے کیا لائے ہوتو میں حضرت قاضی ثناء اللہ صاحب کو پیش کردوں گا ۔ میں کہتا ہوں کہ میں اپنے مستفیدین کو پیش کردونگا ۔ فقط ۔