ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
التزام کہ زور ڈال کر اس کر اس کے لئے چندہ جمع کیا جاتا ہے اور اسی واسطے روشنی اور سجاوٹ کی جاتی ہے حالانکہ حدیث میں ہے لایحل مال امراء مسلم الا بطیب نفسھ ۔ کہ مسلمان کا مال بغیر اس کی خوش دلی کے لینا درست نہیں ہے ۔ کہیں حفاظ اجرت لیکر پڑھتے ہیں غرض کہاں تک خرابیاں بیان کی جائیں جس کو تفصیل کا شوق ہو وہ ،، اصلاح الرسوم ،، مصنفہ حضرت والا کا مطالعہ کرے ۔ امسال یعنی 1337 ھ میں بندہ کا قیام تھانہ بھون میں رہا ۔ اور ماہ رمضان میں من اولہ الٰی آخرہ یہ عاجز تراویح میں شریک رہا حضرت والا نے قرآن شریف سنایا چونکہ حضرت والا ہرامر اتباع سنت کو بدرجہ اعلٰی محفوظ رکھتے ہیں اس کو بھی طریقہ مسنون کے مطابق ادا فرمایا ۔ ایک بات بھی ایسی نہ ہوئی کہ شرع کے خلاف ہو اس لئے بندہ کو مناسب معلوم ہوا کہ تراویح جس طریقہ سے حضرت ادا فرمائیں اس کو قلم بند کردوں کیا اچھا ہو کہ جن حضرات کی نظر سے یہ مضمون گذرے وہ بھی اسی طرح عمل فرمائیں ۔ واللہ اتباع سنت میں دین کی راحت تو ہے ہی دنیا کی بھی بڑی راحت ہے ۔ تجربہ سے اس دعوی کا صادق ہونا معلوم ہوجائے گا ۔ اب میں اس کے متعلق عرض کرتا ہوں وہو ہذا ۔ رمضان شریف میں حضرت کے یہاں عشاء کی اذان کا وقت 8 بجے یعنی غروب سے ایک گھنٹہ چالیس منٹ بعد تھا اور پونے نو بجے جماعت کھڑی ہوتی تھی ۔ حضرت والا فرض بھی خود ہی پڑھاتے تھے ۔ رمضان شریف میں بعد فاتحہ کے چھوٹی سورتیں پڑھتے جیسے الم ترکیف یا والتین وغیرہ اکثر تو یہی عادت تھی کبھی والشمس وغیرہ پڑتھے ۔ غرض قرآت فرضوں میں طویل نہیں ہوتی تھی اس میں مقتدیوں کی رعایت مدنظر تھی چنانچہ حدیث میں موجود ہے ہی ۔ تراویح میں قرآت نہ ہوتو اس قدر جلدی ہو جیسے اس زمانہ میں حفاظ کا طرز ہے کہ الفاظ بھی ٹھیک ٹھیک ادا نہیں ہوتے اور نہ اس قدر دیر میں جیسے فرضوں میں قرآت ہوتی ہے بلکہ فرضوں کی بہ نسبت ذرا کچھ رواں قرآت فرمائی ۔ ہر حرف اچھی طرح سمجھ میں آتا تھا ۔ اظہار و اخفاء کی بھی رعایت تھی ۔ اول اول سوا پارہ پڑھا پھر کم کردیا تھا ۔ ستائیسویں شب کو ختم ہوا ۔ کل وقت فرض اور سنت اور تراویح اور وتر میں ڈیڑھ گھنٹھ یا کبھی اس سے بھی کچھ کم صرف ہوتا تھا ۔ ہر چار رکعت کے بعد کچھ دیر بیٹھے جس کو ترویحہ کہتے ہیں اس میں 25 بار دورد شریف پڑھتے اور پھر تراویح پڑھنے کھڑے ہوجاتے ۔ دورد شریف پڑھنے میں خفیف سا جہر ہوتا تھا ۔ میں