ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
سکتا تھا ۔ ایک دنیوی ضرر کے متعلق اپنا ایک قصہ بیان کرتا ہوں میں کوئی صاحب کشف تو ہوں نہیں مگر ایک دفعہ دارد کے مشابہ ایک چیز قلب میں آئی تھی کہ اس کی مخالفت سے مجھے دنیوی ضرر پہنچا ۔ ضلع کانپوری میں ایک مقام ہے گجنیر وہاں کچھ لوگ ہیں وہ اپنے کونو مسلم کہتے ہیں مگر نام ہی کے مسلمان ہیں ان کی بابت سنا تھا کہ آریہ ہونے والے ہیں ہم ان کے سمجھانے کو گئے تھے اور وہ بھی علماء تھے وہاں ضرورت تھی قیام کی اس لئے کھانے پینے کے بندوبست کی حاجت تھی میں نے دوکنی نکال تھی اس میں دینے کو ۔ خیر پھر ایک رئیس نے سارے خرچ کا تحمل کرلیا تھا دیگ اور بکرا وغیرہ سب چیزیں بھیج دی تھیں ۔ میں نے وہ دونوں گنی اٹھا کر رکھ لیں ۔ کہ کیا ضرورت رہی اس کے بعد میں چلا بریلی بھائی سے ملنے کو میں نے وہاں پہنچ کر چمڑے کا بٹوا جس میں گنیاں تھیں اپنی بھاوج کے پاس رکھ دیا ۔ انہوں نے قفل کے اندر رکھ دیا ایک روز جو اس کو منگا کر گنیاں شمار کیں تو دو کم تھیں حالانکہ کوئی صورت جانے کی نہیں تھی ۔ میں تو سمجھ گیا کہ وصول کرلی گئی ہیں میں چپکا ہوگیا ۔ میری بھاوج نے پوچھا کہ چپکے کیوں ہوگئے ۔ میں نے کہا کہ ان میں دوگنی کم ہیں وہ کہنے لگیں خدا قسم میں نے بٹوا تو کسی کے ہاتھ میں بھی نہیں دیا ، میں نے ان سے کہا کہ تم فکر مت کرو مجھے معلوم ہے کہ جہاں وہ گئیں وہ عالم غیب میں گئیں ۔ ( میں نے حضرت سے عرض کیا کہ وہ کہاں اڑگئی ہوں گی اس پر فرمایا ۔ جو شخص خدائے تعالٰی کا قائل ہو اس کو اس کے سوچنے کی ضرورت نہیں خدا کو قدرت ہے کہ وہ نکال لیں ۔ خیر کوئی بات نہیں سمجھ میں آئی ۔ یعنی طریقہ نہ معلوم ہو جانے کا باقی سبب تو معلوم تھا ۔ کسی واسطہ درمیان میں نہیں تھا جس سے خیال ہوتا کہ شاید اس نے نکال لی ہوں اور ہیں قفل میں ۔ یہ احتمال تو بہت ہی بعید ہے کہ کسی کے پاس کنجی ہو اور اس نے قفل کھول نکال لی ہوں اور پھر اگر کوئی لیتا تو دوہی کیوں لیتا سب ہی کیوں نہ لیتا اور اگر کسی نے لی ہی تب بھی دو کی تخصیص کا سبب وہی تھا غرض ہر حال میں یہ سزا اسی کی تھی کہ میں نے نکال کو پھر رکھ لی تھی ۔ فقط ۔ واقعہ : حضرت والا کے ایک ملازم گبرون کے تھانہ اپنے کپڑے بنانے کی غرض سے حضرت کو دکھانے لائے ۔ خوبصورت تھان تھے ۔ حضرت کو خوبصورتی کی وجہ سے گبرون پسند نہ تھا ۔ فرمایا کہ مرد کے مناسب تو سفید کپڑا ہے اس کے بعد فرمایا ۔ ارشاد : اچھے کپڑے میں یہ خاصہ ہے کہ اس کو پہن کو یوں جی چاہتا ہے کہ ہمیں کوئی دیکھے بھی ۔