ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
بس سمجھ لیجئے کہ عارف انبیاء کی روش پر ہوتا ہے ۔ باقی تصرف تو اس کی لونڈی ہے اگر کرنا چاہئے تو کرسکتا ہے ۔ مگر وہ اس کو بے ادبی سمجھتا ہے اس لئے نہیں کرتا وہ اس کو چھوڑ کر اسباب متعارفہ سے کام لیتا ہے ان چیزوں سے کام نہیں لیتا یعنی تصرفات نہیں کرتا اور وہ یہ نہیں کرتا کہ کھانے پر توجہ ڈالی اور کھانے کو پکادیا گیا ۔ بلکہ لکڑی لاتا ہے چولہا جھونکتا ہے سب کام کرتا ہے ۔ ایک حکایت دیکھی ہے وہ یہ کہ حضرت غوث پاک کچھ وعظ فرمارہے تھے اتنے ہی میں ساکت ہوگئے ۔ یہاں تک کہ حاضرین پر ایک خاص برکت محسوس ہونے لگی ہے ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ ایک شخص بیت المقدس سے ایک قدم رکھ کر میرے پاس آئے تھے ۔ یعنی زمین سمٹ گئی اور ایک قدم میں اتنی مسافت طے ہوگئی یہ امر اور اولیاء کی کرامت میں بھی بکثرت آیا ہے اور میرے ہاتھ پر توبہ کر گئے ہیں کہ پھر اس طرح نہ چلوں گا ۔ اس کرامت سے کرنے آئے تھے یہ برکت ان کی تھی ۔ البتہ بعض اولیاء اللہ ماذون ہیں اظہار کرامات میں اور ان سے اظہار کرامت دوسروں کے نفع دینے کی غرض سے ہوتا ہے ۔ جیسے حضرت غوث اعظم کی نسبت کہا گیا ہے پھر استطر ادا فرمایا کہ بعض نے طی ارض کا انکار کیا ہے مگر ایسے واقعات بکثرت ہوئے ہیں ۔ اس لئے انکار کی گنجائش نہیں ۔ روض الریاحین میں اس قسم کی بہت سی کرامات لکھی ہیں ۔ پھر فرمایا کہ کرامت ایسی چیز ہے کہ بعض اوقات اس شخص کو بھی جس سے کرامت صادر ہوئی ہے اس کی خبر نہیں ہوتی ۔ ایک بزرگ کسی بادشاہ کے دربار میں تھے کسی بات پر بادشاہ نے ناراض ہوکر آواز دی کہ کوئی ہے ۔ انہوں نے بھی کہا کہ کوئی ہے بس یہ کہتے ہی ایک شیر کسی کونے میں سے پیدا ہوا ۔ اور بادشاہ کی طرف چلا ۔ بادشاہ تو بھاگا ہی مگر یہ بھی اس سے ڈر کر بھاگے حالانکہ ان کی ہی کرامت سے یہ شیر پیدا ہوا تھا ۔ معلوم ہوا کہ ان کو خبر بھی نہیں ہوئی کہ میری کرامت سے شیر پیدا ہوا ہے ورنہ بھاگتے کیوں ۔ قرآن شریف میں اس کی نظر موجود ہے ۔ چنانچہ موسٰی علیہ السلام کے بارہ میں ہے ولٰٰی مدبرا ۔ آپ ہی کا تو معجزہ ہے اور آپ ہی ڈرکر بھاگے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ خوارق عادت صادر ہونا بزرگی کے لوازم سے نہیں اور یہ تو امر مشترک ہے کفار سے بھی خوارق صادر ہوتے ہیں کچھ مسلمان ہی کے ساتھ خاص نہیں تو جوامر مشترک ہو وہ کیا قابل فخر ہوگا ۔ مگر لاگ آج کل کشف وکرامت کو بہت ہی کچھ سمجھتے ہیں فقط ۔ واقعہ : اوپر بھی ذکر آچکا ہے ان ہی مولوی صاحب کا بیان ہے کہ میرے گھر میں اور مجھ میں