ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
ضروری بھی نہیں تھا کہ ایسی برکات کو چھوڑ کر چلا جاؤں نہ کوئی عاقل بشرطیکہ اس کے قلب میں دین کی الفت ہو کبھی ایسے موقعہ پر غیر حاضری کو پسند کرسکتا ہے ۔ میرے گھر میں بے طرح میرے سر تھیں ۔ ان کے درد زبان یہی تھا کہ بس چلو دن رات یہی وظیفہ تھا ۔ ،، چو میرے دمبتلا میرد چو خیز مبتلا خیزد ،، میں چونکہ انکار کرتا تھا اس لئے مجھ پر زبان خوب کشادہ رہتی تھی اور مجھ کو اور بھی تکالیف پہنچاتیں حتی کہ حضرت والا کی خدمت میں میری بیجا شکایتوں کا پرچہ بھی بھیجا کہ شاید اسی طرح کام نکلے ۔ حضرت نے تحریر فرمایا کہ شریعت کی رو سے جبر کرنا میرے اوپر لازم نہیں اس لئے میں جبر نہیں کرسکتا ۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ ہم دونوں میں بہت ہی بدمزگی ایک عرصہ تک رہی کہ ایسی کبھی پیش نہ آئی تھی اور میں حق تعالٰی سے دعا کرتا تھا کہ اے اللہ آپ ایسی صورت نکال دیجئے کہ رمضان شریف میں جانا نہ ہو ۔ گو بظاہر میں نے اپنے گھر میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ان شاءاللہ جلدی چلیں گے یہاں تک کہ میرے خسر صاحب کا خط آیا کہ اب مریضہ کی طبیعت اچھی ہے اس خط کے آنے سے مجھ کو بڑی خوشی ہوئی ۔ چونکہ میرے گھر میں کو بیجا طریقہ سے دق کیا تھا ۔ اور حضرت والا کو بھی وقتا فوقتا کچھ واقعات کی خبر پہنچتی رہتی تھی اس لئے حضرت نے فرمایا ۔ ارشاد : اس رشتہ میں سختی بھی نہیں ہوسکتی وہ بھی ٹھیک نہیں اس واسطے چشم پوشی کرنی چاہیے (اس کے بعد بزرگوں کو بیویوں کے واقعات بیان کئے کہ میاں تو ایسے ہیں اور ان کی بیویاں ایسی ۔ چنانچہ ایک بزرگ کی نسبت فرمایا کہ وہ اس قدر نازک طبع تھے کہ ایک بار آپ کی دولائی میں نگندے ٹیڑھے پڑگئے تو آپ کو شب میں نیند نہیں آئی مگر بیوی ایسی ملیں کہ بے نقط سنایا کرتی تھی ۔ ایک روز ایک بزرگ جنہوں نے ایک دوسرا نکاح بھی کرلیا تھا ان کی پہلی بی بی جو تھیں وہ ان کی باری میں جب ان کے یہاں جاتے وہ کواڑ بند کرلیتی گھر میں گھسنے نہ دیتیں ۔ مولوی صاحب دہلیز میں ساری رات بیٹھے رہتے صبح کو کہتے کہ بی بی میں حاضری دے چلا ہوں یہ کہہ کر چلے آتے ایک دفعہ ان ہی بی بی نے مولوی صاحب کی کمر میں دوہتڑ بڑے زور سے مارا تو مولوی صاحب کہتے ہیں کہ ہاں بھائی میں ایسا ہی ہوں ۔ (اس کے بعد حضرت نے کترین سے فرمایا ) کہ یہ سنت تو قدیم سے ہے ۔ اسی طرح بہت سے بزرگوں کے ساتھ ہوا ہے آپ کا تو اس