ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
حضرت سے کسی وقت میں عرض کیا تھا کہ رمضان شریف میں جو ذاکرین خدا کے طالب ہیں وہ خانقاہ میں قیام کریں گے ان کا کھانا اور سحری میری طرف سے ہو ۔ چنانچہ حضرت نے اس کو منظور فرمالیا تھا ۔ اس کے موافق حضرت نے رمضان سے کچھ انتظام فرمادیا ۔ اب ذاکرین میں تین قسم کے حضرات تھے ایک وہ جنہوں نے اس دعوت کو منظور نہیں کیا اپنے ہی پاس سے خرچ کر کے رہنا چاہتے تھے اور ایک وہ جنہوں نے منظور کرلیا ۔ اور ایک وہ جن کو حضرت نے منظور نہیں کیا اور وہ لوگ وہ تھے جو نئے نئے آئے تھے جن کا حال پورے طور سے واضعنہیں ہوا تھا کہ خداہی کے طالب ہیں ۔ ممکن تھا کہ کھانے کی وجہ سے خانقاہ میں آگئے ہوں مگر کھانے کا انتظام سب کا تھا اس طرح کہ جنہوں نے دعوت کو منظور کترلیا تھا ۔ ان کا خرچ تو ان صاحب کے ذمہ تھا ۔ جنہوں نے دعوت کی تھی اور باقی دو قسم کے حضرات نے اپنے پاس سے خرچ داخل کر دیا تھا ۔ فی کسی ایک ماہ کے مبلغ دس روپے مقرر ہوئے تھے اور کھانے کا انتظام حضرت نے اپنے دونوں گھروں میں فرما دیا تھا ۔ شام کا کھانا تو بڑے گھر سے آتا تھا ۔ اور سحری کا چھوٹے گھر سے ۔ منجملہ اور انتظامات کے یہ بھی انتظام تھا کہ خاص پیمانے کے بہت سے برتن مہیا کرلئے گئے تھے اور فی کس دوبرتنوں میں کھانا دیا جاتا تھا ایک میں سحری اور حکم تھا کہ شام کو برتنوں میں کھانا لیجائیں اور صبح کی نماز کے بعد ہر شخص برتنوں کو واپس کردے اور دو ٹو کرے ایک موقع پر رکھ دیئے تھے کہ برتنوں کو ان میں لا کر رکھ دیں ۔ نہایت سہل صورت تھی مگر دورز یہ قصہ ہوا کہ دو ، دو برتن کم ہوئے حضرت کو اس کو اطلاع ہوئی حضرت نے اس پر بہت ناراضگی ظاہر فرمائی اور فرمایا کہ جو آسان سے آسان صورت تجویز کی جاتی ہے لوگ اس کو بھی اختیار نہیں کرتے اس کے بعد فرمایا ارشاد: لوگوں میں تدین نہیں ہے یہ فعل تو بزرگوں کا ہے (کیونکہ خانقاہ میں مقدسین ہی جمع تھے ) اس سے بحث نہیں کہ یہ بات جائز ہے یا نا جائز ۔ بس تساہل ہے اور کچھ نہیں ہے ۔ کتنی بڑٰی آزادی دی گئی تھی کہ رات بھر برتنوں کو اپنے پاس رکھیں اور صبح کو واپس کردیں ۔ اس سے زیادہ آسان اور کون سی صورت ہوگی مگر پھر بھی انتظام نہیں ۔ فی پیالہ ایک پیسہ قیمت کا ہوگا ۔ مجھے اس کا خیال نہیں مجھجے تو ایک اور بات سنانی ہے مجھے ان کے فعل سے منظر نا امیدی کا نظر آتا ہے اصلاح ہونے سے کتنی اصلاح کی جاتی ہے مگر امید نہیں ۔ دل مرجاتا ہے ۔ عزم ہوتا ہے قلب میں کہہ یہ سلسلہ (اصلاح کا ) چھوڑ دیا جائے ۔