ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
کہتے ہیں ایک امام یعنی حاکم کہ یہ اس کے ذمہ ہے یا مامور کہ اس کو معین کیا ہو امام نے یا مختال یعنی متکبر ـ اس زمانہ کی حالت سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ آجکل جو وعظ کہتے ہیں بظاہر ان میں سے ایسا کوئی بھی نہیں جس کو وعظ کہنا جائز ہو اس لئے کہ نہ تو کوئی امیر ہے نہ کوئی مامور ہے تو بس سب مختال ہی رہ گئے ـ اس لئے کسی کو بھی وعظ کہنا درست نہ ہونا چاہئے اس کا جواب ایک تمہید پر موقوف ہے بڑے کام کی بات ہے ـ قلب میں مضمون آیا ہے اس کے متعلق ـ وہ مقدمہ یہ ہے کہ مامور کسے کہتے ہیں مامور اسے کہتے ہیں جسے امام نے اس کام کے واسطے مقرر کیا ہو ـ پھر یہ دیکھنا چاہئے کہ امیرالمؤمنین کی امارت مستفاد کہاں سے ہے ظاہر ہے کہ اس کی امارت عامہ مومنین سے مستفاد ہے جس کو عام مومنین تجویذ کر دیں گے وہ حاکم ہو جائیگا تو اس کی حکومت مستفاد ہے عامہ مومنین سے اور جس کو عامہ مومنین حاکم مان لیں بس شریعت نے بھی اس کو ہی مانا ہے تو اصل یہ امر حکومت عامہ مومنین ہوئے اب امام جو کسی کو معین کرتا ہے تو وہ وکیل ہونے کی حیثیت سے مامور کرتا ہے ـ تو جس کو امام نے مقرر کیا ہے تو واقع میں عامہ مومنین اس کو مامور بناتے ہیں لہذا مامور اسے بھی کہیں گے جو عامیہ مومنین کی طرف سے ہو ـ اب عامہ مومنین کا اجتماع تو مشکل ہے اس لئے وہ لوگ ان کے قائم مقام ہوں گے ـ جن کو عامہ مومنین سمجھیں گے کہ یہ ہمارے بڑے ہیں ان کو زبان حال سے مانتے ہوں گے خواہ ان کا دینی اثر ہو یا دنیاوی اثر وہ کون ہیں اتقیاد اہل حل و ققد مال یہ نکلا کہ جسے یہ لوگ اجازت دیدیں وعظ کی وہ مامور میں داخل ہے ـ اجازت کی صورت دو ہیں ـ ایک یہ کہ وعظ کہنے والا ان سے اجازت طلب کرے ـ اور وہ اجازت دیدیں ـ دوسری جس سے دیندار لوگ استدعا کریں کہ یہ وعظ سنائے پس اہلیت والے واعظین سے مختال ہونے کو شبہ جاتا رہا ـ ایک وکیل صاحب نے حضرت کے پاس آ کر داڑھی منڈانا بالکل چھوڑ دی واقعہ : ایک وکیل صاحب کانپور میں حضرت والا کے پاس آ کر چند یوم رہے تھے اور جہاں کے باشندے تھے وہاں حضرت کو لے بھی گئے تھے ـ وعظ بھی ہوا تھا ـ اور بہت سی مستورات بیعت بھی ہوئی تھیں ـ وکیل صاحب داڑھی منڈاتے تھے مگر صلاحیت طبع میں بہت تھی ـ علماء کے قدر دان تھے ـ حضرت سے انہوں نے میزان شروع کی تھی کانپور میں ان کا خط آیا کہ داڑھی منڈانی چھوڑ دی ـ حضرت نے حاضرین سے ان کی تعریف فرمائی اور فرمایا