ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
ہیں اور یہ ( اہل قلوب ) قلب کے خواص جانتے ہیں نفس کی اصلاح ٹھنڈے چولہے نہیں ہوتی جو لوگ رائے دیتے ہیں کہ یوں ہونا چاہئے تو میں ان کے حوالہ کرتا ہوں وہ اصلاح کریں معلوم ہو جائے گی حقیقت بس مستی ہے ـ نفس کی شرارت ہے ـ مستی کا علاج جوتا ہے ـ مولانا محمد یعقوب صاحب فرماتے تھے کہ جوتا بڑی روشن دماغی پیدا کرنے والا ہے ـ اسی جلسہ میں حق کا اظہار ہونے لگتا ہے سب تاویلیں رخصت ہو جاتی ہیں اگر یہ نہ ہوتا تو جاھد الکفار کیوں ہوتا ـ اللہ تعالی کی طرف سے شرارت کا علاج ہوتا ہے ـ جناب رسولؐ لقطہ کے احکام کے احکام بیان فرما رہے تھے ایک شخص نے پوچھا فضالۃ الابل چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور فرمایا مالک ولہا معھا حذاء ھا وسقاء ھا الخ ـ حالانکہ اس نے تو مسئلہ پوچھا تھا بھلا آپ خفا کیوں ہوئے وجہ یہ تھی کہ وہ اتنی سی بات کو نہ سمجھا کہ ہر بات پوچھنے کی نہیں ہوا کرتی ـ اور غصہ کا نفع یہ ہوا کہ اگر آپ نرمی فرما دیتے کہ بھائی یوں ہے اس طرح اس کے ذہن نشین نہ ہوتا ـ ناراض ہونے سے یہ نفع ہوا کہ ذہن نشین ہو گیا ـ میں فعل پر کہ سہل ہے مواخذہ نہیں کیا کرتا ـ فعل کے منشاء پر مواخذہ کرتا ہوں اور وہ شدید ہے ـ مجھے معلوم ہوا کہ ان میں بیبا کی ہو گئی ہے ـ خدا تعالی کی حدود پر قائم نہیں ہیں ـ وقعت نہیں احکام شرع کی ان کے قلب میں اگر یہی رہا تو آ گے کیا ہو گا اس لئے ناراض ہوا ـ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ کوئی بڑی بات تو نہ تھی ( جو اتنے ناراض ہوئے ) مگر ان کو یہ دیکھنا چاہئے کہ میں کس امر پر مواخذہ کرتا ہوں ـ مثلا کسی نے سامان جمع کیا سلطنت کی مخالفت کا اور ابھی مخالفت نہیں کی تو سلطنت اس سے مواخذہ کرتی ہے وجہ کیا کہ وہ نیت کو دیکھتی ہے عزم تو ہے مخالفت کا گو ابھی مخالفت نہیں کی ـ میں تو کہتا ہوں کہ جو اعتراض کرتے ہیں میری سختی پر وہ بجائے مجھ کو رائے دینے کے وہ میرے پاس آنے والوں کو رائے کیوں نہیں دیتے کہ تم کیسے بیوقوف ہو جو اس کے پاس جاتے ہو ـ میں کوئی بلاتا پھرتا ہوں میں یہ نہیں کہتا کہ مجھ سے غلطی نہیں ہوتی ـ مگر ہاں یہ ضرور ہے کہ جب نیت اچھی ہوتی ہے تو غلطی کم ہوتی ہے ـ چاہے مجھ سے قسم لے لو کہ میں انہیں (یعنی جن پر غصہ ہوتا ہے ) اپنے سے زیادہ مقدس سمجھتا ہوں ـ اگر کوئی طبیب بد پرہیز ہو ـ مگر جب اس سے کوئی رجوع کرے تو اس کو تو پرہیز ہی بتلانا چاہئے ـ خواہ خود نہ کرتا ہو ـ مریض کا یہ منصب نہیں کہ اس میں ( طبیب میں ) عیب نکالنے لگے کہ خود تو پرہیز کرتے نہیں اوروں کو بتلاتے ہیں ـ اسی طرح گو مجھ میں عیوب ہوں