ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
لباس درست کرو پاجامہ پہنو ۔ کہا کہ پاجامہ ہوتو کرتہ بھی ہونا چاہئے ۔ بھائی نے کہا کہ کرتے بہت ۔ کہنے لگے کہ ٹوپی بھی ہو اس نے کہا کہ ٹوپی بہت ۔ پھر گھوڑا بھی ہونا چاہئے غرض اخیر میں کہا کہ بادشاہت بھی ہونی چاہئے ۔ بھائی نے کہا کہ چلئے تخت پر رونق افروز ہوجئے ۔ وہ کہنے لگے کہ میں پاجامہ ہی کیوں پہنوں کہ اتنے قصہ کرنے پڑیں ۔ بس میری لنگی ہی رہنے دو خود ہی جھکڑاکرنے سے جھگڑا ہوتا ہے ۔ شاہ غلام رسول صاحب ایک درویش تھے کانپور میں شیخ تھے ان کے صاحبزادہ شاہ احسان الحق صاحب سے ملاہوں ایک زمانہ میں ان کی مسجد کا کوئی قصہ تھا ۔ ہندوؤں سے جھگڑا تھا ۔ عدالت تک نوبت پہنچی ۔ شاہ صاحب کے نام سمن آیا آپ نے کہا کہ میں عدالت میں نہیں جاؤں گا ۔ لوگوں نے کہا کہ مقدمہ خارج ہوجائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنا گھر نہیں بناتا ہوں چنانچہ نہیں گئے ۔ حاکم کے دل میں یہ ایا کہ ہم خود چل کر تحقیقات کریں گے ۔ اس نے آکرو ہیں اجلاس کیا ۔ شاہ صاحب گھر میں چلے گئے ۔ حاکم کے بلانے پر جواب ملا کہ کافر کے سامنے نہیں آتا ۔ جو تمہاری سمجھ میں نہیں آتا ۔ جو تمہاری سمجھ میں آئے وہ کردو ۔ حاکم نے فیصلہ میں لکھا کہ جو شخص اتنا بڑا محتاط ہے کہ عدالت میں نہیں آتا ۔ اور سامنے نہیں آتا وہ کیا جھوٹ بولے گا ۔ پیلی بھیت میں شاہ جی شیر صاحب تھے ۔ لوگ اسٹیشن پر مسجد بنانا چاہتے تھے ہندوؤں نے مندر بنانا چاہا جھگڑا ہوا ۔ کلکٹر تھے مسلمان انہوں نے مسجد کوبھی روک دیا ۔ شاہ صاحب کی اطلاع ہوئی کہنے لگے کہ میں کچھ کوشش نہ کروں گا ۔ میرا گھر ہے اس کو منظور ہوگا وہ بنوالے گا ۔ اور کہا کہ ساری زمین مسجد ہے لوگ زمین میں نماز پڑھ لیں گے ۔ چنانچہ وہ مسجد پڑی رہی ۔ ایک دفعہ وہ کلکٹر صاحب کے یہاں پہنچے ۔ بعض لوگ پہچانتے بھی تھے ان سے منع کردیا کہ بتلانا مت ذکر مت کرنا شاہ صاحب کے مکان پر پہنچے دہلیز میں ایک تخت ٹوٹا ہوا پڑا تھا وہیں بیٹھ گئے ۔ شاہ صاحب اس حدیث کا مصداق ہوگئے ۔ اتتھ الدنیا وھی راغمۃ کہ ایسے شخص کے پاس دنیا ناک رگڑتی ہے ۔ شاہ صاحب پوچھا کہ مزاج اچھا ہے کیسے آئے کہا کہ مجھ کو کچھ عرض کرنا ہے شاہ صاحب نے کہا کہ کہو کہنے لگے کہ مسجد کا کیا قصہ ہے ۔ شاہ صاحب بولے کہ ہم مسجد بنا رہے تھے ۔ ایک صاحب بہادر آگئے ہیں وہ مانع ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وہ صاحب بہادر مہں ہوں ۔ میں معذرت کرنے آیا ہوں آپ تشریف لے چلئے ۔