مسئلہ. اور اگر نقد نہیں دیا نہ سوداگرى کا مال بیچا بلکہ کوئى اور چیز بیچى تھى جو سوداگرى کى نہ تھى جیسے پہننے کے کپڑے بیچ د-الے یا گھرہستى کا اسباب بیچ دیا یا اس کى قیمت باقى ہے اور اتنى ہے جتنى میں زکوۃ واجب ہوتى ہے پھر وہ قیمت کئى برس کے بعد وصول ہو تو سب برسوں کى زکوۃ دینا واجب ہے اور اگر سب ایک دفعہ کر کے نہ وصول ہو بلکہ تھوڑا تھوڑا کر کے ملے تو جب تک اتنى رقم نہ وصول ہو جائے جو نرخ بازار سے ساڑھے باون تولہ چاندى کى قیمت ہو تب تک زکوۃ واجب نہیں ہے. جب مذکورہ رقم وصول ہو تو سب برسوں کى زکوۃ کا حساب ملنے کے دن سے ہے پچھلے برسوں کى زکوۃ واجب نہیں بلکہ اگر اب اس کے پاس رکھا رہے اور اس پر سال گزر جائے تو زکوۃ واجب ہوگى نہیں تو واجب نہیں.
مسئلہ. اگر کوئى مالدار آدمى جس پر زکوۃ واجب ہے سال گزرنے سے پہلے ہى زکوۃ دے دے اور سال کے پورے ہونے کا انتظار نہ کرے تو یہ بھى جائز ہے اور زکوۃ ادا ہو جاتى ہے اور اگر مالدا ر نہیں ہے بلکہ کہیں سے مال ملنے کى امید تھى اس امید پر مال ملنے سے پہلے ہى زکوۃ دیدى تو یہ زکوۃ ادا نہیں ہوگى. جب مال مل جائے اور اس پر سال گزر جائے تو پھر زکوۃ دینا چاہیے.
مسئلہ. مالدار آدمى اگر کئى سال کى زکوۃ پیشگى دیدے یہ بھى جائز ہے لیکن اگر کسى سال مال بڑھ گیا تو بڑھتى کى زکوۃ پھر دینا پڑے گى.
مسئلہ. کسى کے پاس سو روپے ضرورت سے زیادہ رکھے ہوئے ہیں اور سو روپے کہیں اور سے ملنے کى امید ہے اس نے پورے دو سو روپے کى زکوۃ سال پورا ہونے سے پہلے پیشگى دے دى یہ بھى درست ہے لیکن اگر ختم سال پر روپیہ نصاب سے کم ہو گیا تو زکوۃ معاف ہو گئى اور وہ دیا ہوا صدقہ نافلہ ہو گیا.