مسئلہ. فرض کرو کہ کسى زمانہ میں پچیس روپے کا ایک تولہ سونا ملتا ہے اور ایک روپے کى د-یڑھ تولہ چاندى ملتى ہے اور کسى کے پاس دو تولہ سونا اور پانچ روپے ضرورت سے زائد ہیں اور سال پھر تک وہ رہ گئے تو اس پر زکوۃ واجب ہے. کیونکہ دو تولہ سونا پچاس روپے کا ہوا اور پچاس روپے کى چاندى پچھتر تولہ ہوئى تو دو تولہ سونے کى چاندى اگر خریدو گى تو پچھتر تولہ ملے گى اور پانچ روپے تمہارے پاس ہیں اس حساب سے اتنى مقدار سے بہت زیادہ مال ہو گیا جتنے پر زکوۃ واجب ہوتى ہے. البتہ اگر فقط دو تولہ سونا ہو اس کے ساتھ روپے اور چاندى کچھ نہ ہو تو زکوۃ واجب نہ ہوگى.
مسئلہ. ایک روپیہ کى چاندى مثلا دو تولہ ملتى ہے اور کسى کے پاس فقط تیس روپے چاندى کے ہیں تو اس پر زکوۃ واجب نہیں اور یہ حساب نہ لگائیں گے کہ تیس روپے کى چاندى ساٹھ تولہ ہوئى کیونکہ روپیہ تو چاندى کا ہوتا ہے اور جب فقط چاندى یا فقط سونا پاس ہو تو وزن کا اعتبار ہے قیمت کا اعتبار نہیں. یہ حکم اس وقت کا ہے جب روپیہ چاندى کا ہوتا تھا. آجکل عام طور پر روپیہ گلٹ کا مستعمل ہے اور نوٹ کے عوض میں بھى وہى ملتا ہے اس لیے اب حکم یہ ہے کہ جس شخص کے پاس اتنے روپیہ یا نوٹ موجود ہوں جن کى ساڑھے باون تولہ چاندى بازار کے بھاؤ کے مطابق آسکے اس پر زکوۃ واجب ہوگى
مسئلہ. کسى کے پاس سو روپے ضرورت سے زائد رکھے تھے پھر سال پورا ہونے سے پہلے پہلے پچاس روپے اور مل گئے تو ان پچاس روپے کا حساب الگ نہ کریں گے بلکہ اسى سو روپے کے ساتھ اس کو ملا دیں گے اور جب ان سو روپے کا سال پورا ہوگا تو پورے د-یڑھ سو کى زکوۃ واجب ہوگى اور ایسا سمجھیں گے کہ پورے د-یڑھ سو پر سال گزر گیا.