مسئلہ4. کسى نے اپنى بى بى کو طلاق رجعى دے دى. پھر دو برس سے کم میں اس کے کوئى بچہ پیدا ہوا تو لڑکا اسى شوہر کا ہے اس کو حرامى کہنا درست نہیں. شریعت سے اس کا نسب ٹھیک ہے. اگر دو برس سے ایک دن بھى کم ہو تب بھى یہى حکم ہے ایسا سمجھیں گے کہ طلاق سے پہلے کا پیٹ ہے اور دو برس تک بچہ پیٹ میں رہا اور اب بچہ ہونے کے بعد اس کى عدت ختم ہوئى اور نکاح سے الگ ہوئى. ہاں اگر وہ عورت اس جننے سے پہلے خود ہى اقرار کر چکى ہو کہ میرى عدت ختم ہو گئى تو مجبورى ہے اب یہ بچہ حرامى ہے بلکہ ایسى عورت کے اگر دو برس کے بعد بچہ ہوا اور ابھى تک عورت نے اپنى عدت ختم ہونے کا اقرار نہیں کیا ہے تب بھى وہ بچہ اسى شوہر ہى کا ہے چاہے جس برس میں ہوا ہو. اور ایسا سمجھیں گے کہ طلاق دے دینے کے بعد عدت میں صحبت کى تھى اور طلاق سے باز آ گیا تھا اس لیے وہ عورت اب بچہ پیدا ہونے کے بعد اسى کى بى بى ہے اور نکاح دونوں کا نہیں ٹوٹا. اگر مرد کا بچہ نہ ہو تو وہ کہہ دے کہ میرا نہیں ہے اور جب انکار کرے گا تو لعان کا حکم ہوگا.
مسئلہ5. اگر طلاق بائن دے دى تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر دو برس کے اندر اندر پیدا ہوا تب تو اسى مرد کا ہوگا اور اگر دو برس کے بعد ہو تو وہ حرامى ہے. ہاں اگر دو برس کے بعد پیدا ہونے پر بھى مرد دعوى کرے کہ یہ بچہ میرا ہے تو حرامى نہ ہوگا اور ایسا سمجھیں گے کہ عدت کے اندر دھوکے سے صحبت کر لى ہوگى اس سے پیٹ رہ گیا.
مسئلہ6. اگر نابالغ لڑکى کو طلاق مل گئى جو ابھى جوان تو نہیں ہوئى لیکن جوانى کے قریب قریب ہو گئى ہے پھر طلاق کے بعد پورے نو مہینے میں بچہ پیدا ہوا تو وہ حرامى ہے اور اگر نو مہینے سے کم میں پیدا ہوا تو شوہر کا ہے. البتہ وہ لڑکى عدت کے اندر ہى یعنى تین مہینے سے پہلے اقرار کر لے کہ مجھ کو پیٹ ہے تو وہ بچہ حرامى نہ ہوگا. دو برس کے اندر اندر پیدا ہونے سے باپ کا کہلائے گا.