میں ہے کہ اللہ تعالى کریم ہے اور کرم کو پسند کرتا ہے اور دوست رکھتا ہے عالى اخلاق کو یعنى ہمت کے نیک کاموں کو جیسے خیرات کرنا ذلت سے بچنا دوسرے کى وجہ سے اپنى ذات پر تکلیف برداشت کرنا وغیرہ اور ناپسند کرتا ہے حقیر اخلاق و عادتوں کو جیسے پست ہمتى دینى امور ہیں حدیث. میں ہے کہ بے شک صدقہ بجھاتا ہے اپنے اہل سے یعنى صدقہ کرنے والے سے گرمى قبر کى اور ضرور یہى بات ہے کہ سایہ حاصل کرے گا مسلمان اپنے صدقہ کے سایہ میں قیامت کے روز یعنى صدقہ کى برکت سے قبر کى گرمى دور ہوتى ہے اور قامت کے دن سایہ میسر ہوگا. حدیث. میں ہے کہ تحقیق اللہ تعالى کے خاص بندے ہیں جن کو اس نے خاص کیا ہے لوگوں کى حاجتوں کے پورا کرنے کے لیے اور مضطر ہوتے ہیں ان کى طرف لوگ اپنى حاجتوں میں یعنى لوگ مجبور ہو کر ان کے پاس جاتے ہیں اور حق جل شانہ نے ان حضرات کو لوگوں کى نفع رسانى کے لیے منتخب فرما لیا ہے یہ لوگ حاجتوں کے پورا کرنے والے امن پانے والے ہیں. اللہ کے عذب سے. حدیث. میں ہے کہ خرچ کر اے بلال اور مت اندیشہ کر عرش کے مالک سے کمى کا یعنى مناسب موقعوں پر خوب خرچ کرو اور تنگى کا اندیشہ حق تعالى سے نہ کرو اور اس جگہ عرش کى ملکیت اللہ تعالى کى خاص طور پر فرمائى گئى اگرچہ وہ تمام چیزوں کا مالک ہے سو یہ خصوصیت اس لیے فرمائى گئى کہ عرش نہایت عظیم الشان مخلوق ہے پس اس کو ذکر میں خاص کیا اور بتلا دیا کہ جس ذات کے قبضہ و تحت میں ایسى عظیم الشان چیز ہے اور وہ ایسى بڑى چز کا مالک ہے تو اس سے تنگى کا اندیشہ نہ چاہیے. کیا یہ گمان ہو سکتا ہے کہ ایسا بادشاہ اپنے کسى بندے کو دو روٹى نہ دے گا ہرگز یہ گمان نہیں ہو سکتا اور اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بے حد ہر شخص خرچ کر د-الے اور پھر پریشان ہو اور گھبرائے.