مسئلہ. ایک شخص کو مستحق سمجھ کر زکوۃ دے دى پھر معلوم ہوا کہ وہ تو مالدار ہے یا سید ہے یا اندھیارى رات میں کسى کو دے دیا پھر معلوم ہوا کہ وہ تو میرى ماں تھى یا میرى لڑکى تھى یا اور کوئى ایسا رشتہ دار ہے جس کو زکوۃ دینا درست نہیں تو ان سب صورتوں میں زکوۃ ادا ہو گئى دوبارہ ادا کرنا واجب نہیں لیکن لینے والے کو اگر معلوم ہو جائے کہ یہ زکوۃ کا پیسہ ہے اور میں زکوۃ لىنے کا مستحق نہیں ہوں تو نہ لے اور پھىر دے. اور اگر دینے کے بعد معلوم ہوا کہ جس کو دیا ہے وہ کافر ہے تو زکوۃ ادا نہیں ہوئى پھر ادا کرے.
مسئلہ. اگر کسى پر شبہ ہو کہ معلوم نہیں مالدار ہے یا محتاج ہے تو جب تک تحقیق نہ ہو جائے اس کو زکوۃ نہ دے. اگر بے تحقیق کیے دے دیا تو دیکھو دل زیادہ کدھر جاتا ہے اگر دل یہ گواہى دیتا ہے کہ وہ فقیر ہے تو زکوۃ ادا ہو گئى اور اگر دل یہ کہے کہ وہ مالدار ہے تو زکوۃ ادا نہیں ہوئى پھر سے دے. لیکن اگر دینے کے بعد معلوم ہو جائے کہ وہ غریب ہى ہے تو پھر زکوۃ ادا ہو گئى.
مسئلہ. زکوۃ کے دینے میں اور زکوۃ کے سوا اور صدقہ خیرات میں سب سے زیادہ اپنے رشتہ ناتہ کے لوگوں کا خیال رکھو کہ پہلے ان ہى لوگوں کو دو لیکن ان کو یہ نہ بتاؤ کہ یہ زکوۃ یا صدقہ اور خیرات کى چیز ہے تاکہ وہ برا نہ مانیں. حدیث شریف میں آیا ہے کہ قرابت والوں کو خیرات دینے سے دہرا ثواب ملتا ہے. ایک تو خیرات کا دوسرا اپنے عزیزوں کے ساتھ سلوک و احسان کرنے کا پھر جو کچھ ان سے بچے وہ اور لوگوں کو دو.
مسئلہ. ایک شہر کى زکوۃ دوسرے شہر میں بھیجنا مکروہ ہے ہاں اگر دوسرے شہر میں اس کے رشتہ دار رہتے ہوں ان کو بھیج دیا یا یہاں والوں کے اعتبار سے وہاں کے لوگ زیادہ محتاج ہیں یا وہ لوگ دىن کے کام میں لگے ہیں ان کو بھیج دیا تو مکروہ نہیں کہ طالب علموں اور دیندار عالموں کو دینا بڑا ثواب ہے.