’’لن یفلح قوم ولوا امرھم امراۃ‘‘
’’وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتی جس کی نگران عورت ہو‘‘
{وَبِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ}
یعنی جو مہراور دیگر اخراجات مرد، عورت کے برداشت کرتا ہے‘ ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرد عورت سے افضل ہے۔ تو اسے اس پر نگران بنانا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:
’’مرد عورتوں کے امیراور حاکم ہیں۔ عورتوں کو چاہیے کہ وہ جس کا حکم دیں ان کی اطاعت کریں‘ اور مرد کی اطاعت و فرمانبرداری یہ ہے کہ وہ اس کی خیر خواہ اور اس کے مال کی محافظ ہو‘‘۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک عورت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اس کے خاوند نے اسے تھپڑ مارا ہے اور وہ اپنے خاوند سے بدلہ لینا چاہتی ہے، تو اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی:
{اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ}
تو وہ عورت بدلہ لیے بغیر واپس چلی گئی۔
آگے اللہ پاک نیک عورت کی صفات بیان فرما رہے ہیں:
{فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ}
حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ اپنے خاوند کی فرمانبردار ہوں۔
قانتات فرمایا مطیعات نہیں فرمایا:
غور کیجیے! اللہ پاک نے اس آیت میں لفظ قانتات استعمال فرمایا ہے، مطیعات بیان نہیں فرمایا۔ وجہ یہ ہے کہ قنوت کے معنی ہیں ایسی اطاعت جس کے ساتھ نافرمانی نہ ہو یعنی خالص اطاعت۔
تمام احکام کی فرمانی برداری کرنے والی۔
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیْفًا}
{یَا مَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ}
{وَصَدَّقَتْ بِکَلِمَاتِ رَبِّھَا وَکُتُبِہٖ وَکَانَتْ مِنَ الْقَانِتِیْنَ}
ان الفاظ پر غور کیجیے! یہ خاوند کی اطاعت کا کس قدر حکم دے رہے