’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم اپنی عورتوں سے گفتگو کرتے اور بے تکلفی برتتے ہوئے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں ہمارے متعلق کوئی حکم نازل نہ ہوجائے‘‘
خواتین کو اسلام نے حقوق دیتے ہوئے کہا کہ اس پر جو دست درازی کرے گا اس کی باز پرس ہوگی، نیز اسلام نے خواتین کے تقدس کو برقرار رکھتے ہوئے ان کے حقوق و ضوابط کا قانونی طور پر تعین بھی کردیا۔اسلامی معاشرت نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں جو حقوق و مراعات خواتین کو دیئے ہیں‘ ان سے اس نے فائدہ بھی اٹھایا اور جہاں کہیں دیکھا کہ اس کے حقوق تلف کیئے جارہے ہیں یا اس پر کسی قسم کی زیادتی ہورہی ہے تو اس نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے پوری بصیرت کے ساتھ جدوجہد بھی کی ہے اور اسلامی قانون نے ایسے تمام مواقع پر اس کو کامیاب بنایا ۔
ایک صاحب نے اپنی لڑکی کا نکاح ایک مالدار شخص سے کردیا ‘لیکن لڑکی اس کو پسند نہیں کررہی تھی، اس لئے اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :میرے والد نے میری شادی اپنے ایک دولت مند بھتیجے سے کردی ہے ‘تاکہ مجھ کو پھنسا کر اپنی کشاکش کا سامان کریں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر تجھ کو یہ عقد پسند نہیں ہے تو توآزاد ہے ۔اس نے کہا :میرے والد نے جو اقدام کیا ہے میں اس کو بحا ل کرتی ہوں ‘لیکن میں چاہتی ہوں کہ عورتوں کو معلوم ہوجائے کہ ان کی مرضی کے خلاف باپوں کو ان کے نکاح کا حق نہیں ہے۔
بہر حال اسلام نے عورت کوجو حقوق دیئے ہیں وہ ہمیں کسی بھی اور مذہب میں نظر نہیں آتے اور بہت سے حقوق تو بحیثیت عورت کے ہیں اور بہت سے حقوق عورت کے مختلف رشتوں سے متعلق ہیں۔مثلاً اگر ماں ہے تو جنت اس کے قدموں تلے رکھ دی گئی اور اگر بیوی ہے تو اسے گھر کی ملکہ بنادیا گیا اور اگر بیٹی ہے تو اس کی اچھی تعلیم و تربیت جنت کی ضامن بنادی گئی۔
خواتین کے حقوق اور فضیلت اس قدر وسیع موضوع ہے کہ بہت سے حضرات نے اس پر گرانقدر کتب تحریر کی ہیں ،جن میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب’’اصلاح خواتین‘‘ ، مولانا عاشق الٰہی بلند شہری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب’’تحفہ خواتین‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اور ان کتب سے خواتین میںمعاشرتی طور پر جو تبدیلی آئی ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا‘بہت سی خواتین نے ان کتب کے مطالعہ سے اپنی زندگیوں میں اسلامی انقلاب برپا کیاہے۔