انہوں نے پوچھا:
خالہ! آپ زندگی پھر کیسے گزارتی تھیں؟
فرمانے لگیں:
دو چیزوں پر‘ یعنی پانی اور کھجوروں پر۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں رہنے والے انصار کے ہاں بکریاں ہوتی تھیں وہ ان کا دودھ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بھیج دیتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں عطا فرما دیتے۔ (اخرجہ بخاری)
ہم بھوک تو برداشت کر سکتی ہیں لیکن…!
کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جو اپنی ضروریات کا رونا روتی رہتی ہیں‘ بے چارہ خاوند مجبوراً زیادہ کمانے کے شوق میں حرام کمائی میں مشغول ہو جاتا ہے۔
ایسی خواتین سے انتہائی مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ سلف صالحین کی خواتین کے اس قول کو یاد رکھیں۔
جب ان میں سے کسی کا خاوند کام پر نکلتا تو وہ کہتیں:
’’حرام کمائی سے بچنا‘ کیونکہ ہم بھوک تو برداشت کر سکتی ہیں لیکن جہنم کی آگ برداشت کرنا ہمارے بس کی بات نہیں‘‘
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان حرام کمائی سے تو بچ جاتا ہے لیکن قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے اور قرض کے بارے میں مشہور ہے:
ھم باللیل وذل بالنھار
’’رات بھر اس کی فکر لگی رہتی ہے اور دن بھر انسان اس کی وجہ سے ذلت برداشت کرتا رہتا ہے‘‘۔
حمل الضخور اخف من ثقل الدیون
’’بھاری بھرکم چٹانوں کا بوجھ اٹھانا قرضے کے بوجھ سے کم ہے‘‘۔
قرض کی مصیبت اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ شہید کے قرضے کے علاوہ سب کچھ معاف کر دیا جاتا ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسے شخص کا جنازہ نہ پڑھتے تھے جس پر لوگوں کا قرض ہوتا تھا۔
لہٰذا گزارش یہ ہے کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلایئے۔ اپنی وسعت دیکھ کر خرچ کیجئے اور ساتھ ساتھ کم سے کم میں گزارہ کرنے کی عادت ڈالیے۔
حضرت ابو بکرؓ فرماتے ہیں: