ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
بعض مشائخ کو دیکھا ہے ۔ تسبیح چل رہی ہے اور باتیں بھی کر رہے ہیں ۔ میں نے کہا کہ دو طرف توجہ کیسے ہوسکتی ہے کہا قلب جاری ہے ۔ تصوف کا بھی ناس کردیا ۔ تصوف حقیقت میں ایک فلسفہ باطنی ہے جس کی ساری باتیں قرآن وحدیث کے مطابق ہیں مگر لوگوں نے اس کو بالکل ایک نیا فن بنا رکھا ہے ۔ البتہ حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں بیٹھ کر معلوم ہوتا تھا کہ یہ فسلفہ اس کے سامنے بالکل گرد ہے اس کی ساری باتیں عقل ونقل سے سمجھ میں آتی ہیں ۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ ابتدا میں بعض کی سمجھ میں نہ آئیں مگر ذرا مناسبت کے بعد پھر سمجھ میں آجاتی ہیں ۔ اتنا فرق ہے کہ فسلفہ کلام کے سمجھنے میں نراقول کافی ہے اور یہاں حال کی ضرورت ہے مگر اب تو تصوف محض رسم کا نام رہ گیا ہے ایک ڈاکڑ دیندار فہیم تصوف کے سخت منکر تھے غیر مقلد بھی تھے ۔ بعض امراء آرام کے واسطے غیر مقلد ہوجاتے ہیں ۔ انہوں نے گھر میں کا علاج کیا تھا اس سبب سے ان سے ملنا جلنا ہوا بہت محبت کرتے تھے ۔ کبھی فیس بھی نہیں لی ۔ بلکہ خود گاہ گاہ میری دعوت بھی کی ۔ انہوں نے ایک دفعہ تصوف کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کئے اور خود ہی تصوف کی حقیقت بھی بیان کی معلوم ہوا وہ حقیقت اس کی بعض انغال اور بعض سمجھے ہوئے تھے میں نے کہا یہ تو بیشک واجب الانکار ہے ۔ اس کے بعد میں نے حقیقت بتلائی پھر تو دعائیں دینے لگے کہ خدا خوش رکھے بڑی غلطی سے نکالا پھر مجھ سے تعلیم کی درخواست کی میں نے کہا کہ قرآن شریف کی زیادہ تلاوت کیا کیجئے انہوں نے کہا کہ اس کا تو مجھے خود بڑا شوق ہے ۔ صاحب میں تو یہ سمجھتا تھا کہ ضربیں لگانا پڑیں گی ۔ بات یہ ہے کہ ہرشخص کے مناسب جدا طریقہ بتلایا جاتا ہے ۔ میں نے بعض کو نفل بتلائے ہیں ۔ ان کو قرآن کی تلاوت بتلائی اکثر کو ذکر وشغل بتلاتا ہوں ۔ اب تو مشائخ نے چند شغل ایجاد کرلئے ہیں ۔ اور بس حالانکہ طریق تین چیزیں ہیں : تلاوت ، نماز ، ذکر ۔ اتفاق سے مجھے یہ سب ایک آیتہ میں مجتمع مل گئی ہیں : اتل مااوحی الیک من الکتب واقم الصلوۃ ان الصلوۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر ولذکر اللہ اکبر ۔ باقی اس کی ترتیب اور کمی بیشی یہ شیخ کی رائے پر ہے کہ کس کے لئے کیا مناسب ہے ۔ اور کس کے لئے کیا پھر ان تین میں بھی زیادہ اصل مقصود تلاوت ونماز ہے جو کہ ذکر کی بھی فردیں