ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
نہ کرو اور اتراؤ نہیں ۔ کسی چیز کے حاصل ہونے پر حاصل اس غایت کا وہی قوت و راحت ہوا۔ سو کہاں یہ غایت اور کہاں یہ غایت جو لوگوں نے سمجھ رکھی ہے ۔ یعنی تعطل پھر یہ غایت تراش کر خود ہی مسئلہ تقدیر پر اعتراض کردیا ۔ چنانچہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسئلہ تقدیر نے بیکار بنادیا اس کی مثال سمجھئے کہ جو مر ہم جلے ہوئے کیلئے ہے وہ اس لیے ہے کہ اگر جل جاؤ تو اس کا استعمال کرو نہ اس لئے کہ اس کے بھروسہ بدن کو جلالیا کرو۔ اس ہی طرح مسئلہ قدر اس لئے ہے کہ اگر کوئی مصیبت آجائے تو اس کا استعمال کرو ۔ نہ اس لئے کہ اس کے بھروسہ مصیبت میں پھنسا کرو ۔ فقط ارشاد : پختہ لوگوں کی باتوں کو خام کیا جانے ۔ بعض امورصوفیہ کے خلاف ظاہر معلوم ہوتے ہیں مگر جب حقیقت پر اطلاع ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے حضرت حاجی صاحب سے سنا ہے کہ دہلی میں ایک درویش سید حسن رسول نما ہوئے ہیں بیداری ہی میں زیارت کرادیتے تھے حضور ﷺ کی اور دو ہزار روپیہ لیتے تھے مجھ کو یہ قصہ سن کر وسوسہ ہوا کہ یہ تو دنیا کمانے والوں کی سی بات ہوئی مگر ،، در نیا بد حال پختہ ہیچ خام ،، حضرت حاجی صاحب نے اس کی شرح فرمائی ۔ فرمایا کہ یہ زیارت کرادینا ایک قسم کا تصرف تھا جس سے کشف ہوجاتا تھا اور تصرف کے لئے ایک تو فاعل ہونا چاہیے اور دوسرے قابل ہونا چاہیے صرف فاعل پر اثر مرتب نہیں ہوتا ۔ تا وقتیکہ قابل نہ ہو ۔ ان کا تصرف تو قوی تھا اور چونکہ یہ ایک قسم کا انکشاف ہے ۔ اس کے واسطے دوسرے میں کشف کی قابلیت شرط تھی اور یہ قابلیت مجاہدہ سے ہوتی ہے اور مجاہدہ ایک تدریجی ہے اور ایک فوری ہے ۔ اور تدریجی مجاہدہ کا تو وقت نہ ہوتا تھا ۔ اس لئے وہ فوری مجاہدہ کرادیتے تھے ۔ پس دو ہزار روپیہ دینا چونکہ نفس پر شاق ہوتا تھا اس سے ایک مجاہدہ ہوجاتا تھا ۔ اور فاعل قوی تھا ہی بس اثر مرتب ہوجاتا تھا یعنی زیارت ہوجاتی تھی اور درخواست کنندہ سے یہ رقم لیکر اپنے پاس رکھتے بھی نہ ہوں گے ۔ مستحقین کو دیدیتے ہوں گے یہ غرض تھی ان کے اس لینے سے کمانے والے نہ تھے فرمایا ۔ اس کی تائید ایک قصہ سے ہوتی ہے وہ بھی حضرت نے بیان فرمایا تھا کہ ایک بار ان کی بیوی نے ان سے زیارت کی درخواست کی انہوں نے ان سے بھی کہا کہ دوہزار روپیہ لاؤ ۔ بیوی