ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
میرے نزدیک گھر میں بیٹھے رہنا بی بی بچوں سے بات کرنا یہ بھی ایک درجہ کی خلوت ہی ہے یہ جو فضول مجالست ہوتی ہیں یہ نہایت ہی مضر ہے آج کل لوگوں نے اس کو مستقل مشغلہ بنایا ہے کہ اس سے مل آئے اس سے مل آئے ۔ اور مقصود تو اعتدال کی تعلیم ہے کہ معتدل درجہ کا کلام کرے نہ یہ کہ بالکل مہر سکوت لگائے ۔ لوگوں کا چلہ خاموش پر اعتراض ہے مگر کیا عجیب وغریب اعتراض ہے بس میں تو یہ کہتا ہوں شعر : اے ترا خارے بپانہ شکستہ کے دانی کہ حپیست حال شیرانے کہ شمشیر بلا برسر خورند اس کی حس ہی نہیں رہی کہ زیادہ بولنے سے کیا مفسدہ ہوتا ہے اور کیا اس کی اصلاح ہے فقط ۔ واقعہ : ایک صاحب نے سوال کیا کہ والدین کو ثواب پہنچانا کیا یہ حقوق میں سے ہے اس پر حضرت والا نے فرمایا : ارشاد : حقوق واجبہ میں سے نہیں حقوق مستحبہ میں سے ہے ( ایک صاحب نے عرض کیا کہ کیا زندوں کو بھی ثواب پہنچتا ہے اس پر فرمایا ) جیسے مردوں کو پہچتا ہے ویسے ہی زندوں کو بھی پہنچتا ہے ۔ ماخزاس کا یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے ایک شخص سے کہا تھا کہ مسجد عشاء میں دورکعت پڑھ کر کہنا کہ ہذہ لابی ہریرہ کہ ان کا ثواب ابوہریرہ کو پہنچتے اور زندہ تھے ۔ فقط ۔ ارشاد : یہ جو امام صاحب نے فرمایا کہ امر السلطان اکراہ کہ حاکم کا امر بھی اکراہ میں داخل ہے گو تخویف نہ ہوتو اس کی دلیل قرآن کریم میں ہے وہ یہ کہ ساحران نے کہا تھا لیغفر لنا خطایا ناوما اکرھتنا علیھ من السحر ۔ حالانکہ اکراہ سے تعبیر کیاگیا اس سے معلوم ہوا کہ امر بھی سلطان کا اکراہ ہے چاہے تخفیف نہ ہو فقط ۔ واقعہ : ایک صاحب کے مشاعرہ وغیرہ میں زیادہ مشغول ہونے اور ہائے ہو زیادہ کرنے کا ذکر تھا اس پر حضرت نے فرمایا : ارشاد : بات یہ ہے کہ زیادہ وقت عمل میں گزارنا چاہئے اور ہائے ہو کامزہ بھی عمل والے ہی کو آتا ہے جیسے چٹنی کا مزہ بھی اسی کو آتا ہے جس کے سامنے مختلف کھانے ہوں اور جس کے سامنے چٹنی ہوتو اس کو کیا مزہ اسی طرح لہو ولعب کا مزہ بھی اس کو آتا ہے جس کے کام کے اوقات منضبط ہوں ۔ چنانچہ انگریزوں کے یہاں بھی اوقات منضبط ہیں انہی کو لہو ولعب کا مزہ بھی ہے۔ ان کی یہ حالت ہے کہ جوکام کا وقت ہے اس میں اس قدر ڈٹ کر کام کرتے ہیں کہ حد سے زیادہ اور لہو