ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
چاہئے افسوس یہ ہے کہ بعض علماء تک اس کی پرواہ نہیں کرتے ۔ اور رؤ سا کو تو اس کی طرف بالکل ہی التفات نہیں ۔ کسی سے خوب بیگار یں لیتے ہیں اور کسی کو خوب ہی مارتے پیٹتے ہیں ۔ گرضیکہ مختلف طریقوں سے ایذا پینچاتے رہتے ہیں آجکل اس طرف لوگوں کو توجہ نہیں ۔ فقط ۔ ارشاد : لوگ اس کی بڑی شکایت کرتے ہیں کہ ذکر وشغل ہیں جیسا پہلے لطف آتا تھا جوش وخروش ہوتا تھا اب نہیں ہوتا ۔ حضرت مولانا فضل الرحٰمن صاحب سے کسی نے یہی شکایت کی تھی تو آپ نے فرمایا نے کہ بھائی جانتے ہو خبر بھی ہے کہ پرانی جورواماں ہوجاتی ہے ۔ اس پر ایک حکایت ظرافت آمیز یاد آئی ۔ ایک ولایتی تھے رئیس ہندوستان میں رہتے تھے ان کی بی بی کا انتقال ہوگیا ۔ صاحب کلکٹر ان کے یہاں عیادت کوگئے اور اظہار افسوس کیا تو وہ رئیس صاحب کہتے ہیں کہ صاحب وہ ہمارا بی بی نہیں تھا وہ ہمارا اماں تھا ہمیں ہوا کرتا تھا ہمارا کھانا پکاتا تھا ۔ ہماری خدمت کرتا تھا ۔ کلکٹر صاحب یہ سن کر ہنسنے لگے ذکر وشغل میں واقعی ابتداء کا سا جوش وخروش نہیں رہتا نہ ویسی لذت رہتی ہے مگر اس کی طرف التفات نہ چاہئے کیونکہ احوال مقصود ہیں خواہ وہ بہ تکلف ہوں ۔ اسی واسطے تربیت السالک میں ان سب امور کا فیصلہ کردیا ہے اس کو ذہن میں حاضر رکھنے والا کبھی خلجان میں نہ پڑیگا مایوس نہ ہوگا ۔ اس طرف التفات ہی نہ چاہئے کہ پہلا ساذوق شوق نہیں رہا کام کئے جاؤ ۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو چیز غیر اختیاری ہے وہ مضر نہیں خواہ کتنی ہی بری ہو ۔ یہاں تک کہ کفر سے بڑھ کر تو کوئی چیز بری نہیں ۔ اگر بلا اختیار اس کا وسوسہ بھی آئے تب بھی مضر نہیں ۔ صحابہ نے حضور صل اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تھی کہ ہمارے قلب میں ایسے وسوسے آتے ہیں کہ یوں جی چاہتا ہے کہ ہم کو جل کر کوئلہ ہوجانا گوارا ہے مگر ان کو زبان پر لانا گوارا نہیں ہے ۔ آپ نے اس پر فرمایا ۔ ذالک صریح الایمان کہ یہ تو کھلا ہوا ایمان ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ جو حالت اس کے گمان میں بری ہوتو وہ واقع میں بھی بری ہو ۔ اسی لئے سالک کو حالت بھی بلا اختیار پیش آئے اس کو خیر ہی سمجھے ۔