ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
پرچہ میں جواب دیتا ہوں صرف انہیں کی مصلحت کے لحاظ سے ایسا کیا ہے ۔ کیونکہ بعض لوگ زبانی بات کھل کر کہتے نہیں مجھ کو اس سے تکلیف ہوتی ہے ۔ اور ان کو ضرر ہوتا ہے ایسے قواعد پر صرف ضرورت مجبور کرتی ہے ۔ جب کوئی شخص کسی سے کام لے تو بقدر امکان اس کی اعانت کرے نہ یہ کہ سارا بوجھ اس پر دال دے ۔ اتنی ہی مدد سہی کہ منہ سے صاف الفاظ تو کہے اور موقعہ کو سمجھے نیاز نے اس وقت ایک فرمایش میں دوسری فرمائش کو ادغام اور منضم کردیا ۔ اپنی حاجت کو دوسرے کی حاجت میں ملادیا ( حاضرین سے فرمایا اصل میں تعویز اس نے مجھ سے کل مانگا تھا مگر مجھ کو یاد کہا نتک رہے یہ اسی کے بھروسہ رہے کہ میں تو کل کہہ ہی چکاہوں اس لئے صرف اتنا ہی کہا کہ تعویز دیدو اور پھر وہ بھی ایسے موقعہ پر کہ ایک تعویز اس کو ابھی دے چکاہوں ۔ ارشاد : کانپور میں ایک شادی تھی اس میں ناچ کی بھی تجویز ہوئی مگر بعض ثقات نے شرکت سے عزر کردیا ۔ صاحب ضانہ نے محض ان کو شریک کرنے کے لئے یہ کیا کہ ایک روز تو مولود شریف کرایا ۔ جس میں ثقات آسکیں اور دوسرے روز اسی جگہ بازاری عورت کو نچوایا یہ مولود کی قدر رہ گئی ہے ۔ لوگ مانعین کو بے ادب کہتے ہیں اور اس طرح کانا بڑا ادب ہے ۔ ارشاد : لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ چار زانوں بیٹھ کر سونے سے وضو ٹوٹتا ہے یہ نہیں ۔ میں قواعد سے جواب دیا کرتا ہوں کہ نہیں ٹوٹتا مگر کوئی جزئی نہیں دیکھی تھی ۔ اس وقت عالمگیری کو دیکھا تو جزئیہ موجود ہے کہ وضو نہیں ٹوٹتا ۔ واقعہ : ایک صاحب مراد آباد سے تشریف لائے اور عرض کیا کہ جناب کو جلسہ سالانہ شاہی مسجد میں تکلیف کے لئے مجھ کو بھیجا ہے جس موقعہ پر تشریف لے جانا مناسب ہو ۔ اس سے مطلع فرمادیجئے توکہ تاریخ جلسہ اس کی مطابق معین کردیجائے ( حضرت کبھی کبھی اکثر اس جلسہ میں تشریف لے جاکر وعظ فرمایا کرتے تھے ) حضرت نے عزر فرمایا جس کے متعلق ملفوظ ذیکل ہے ۔ ارشاد : میری طبیعت تو بندھ گئی بیان نادشوار ہے ۔ معترضین نے وہ وہ اعتراض کئے جن سے دل بجھ گیا اور شبہ ہوگیا کہ مجھ میں اہلیت نہیں ہے ( یہ وہی اعتراضات تھے قصہ خواب کے متعلق) لوگ ادہر کی کمی سمجھتے ہیں اور میں ادہر کی کمی خیال کرتاہوں ۔ سہارنپور میں بھی شگفتگی سے بیان نہ ہوسکا جب طبیعت میں رکاوٹ ہوتی ہے تو مضمون کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے بیان میں بے لطفی