ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
میں نے کہا تھا کہ اصل تو اتنی ہے اگر یہ نہ ہو تو مجبوری میں ان سب کے قائم مقام یہ ہے کہ کسی عالم محقق سے پڑھ لیں یہ بھی نہ ہو تو سوائے گمراہی کچھ نہیں مجھے پہلے سے اہتمام نہ تھا اس کے بیان کرنے کا ۔ مگر ایک صاحب وکیل ہیں انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ایک مسئلہ ہم میں درپیش ہوا کرتا ہے وہ یہ کہ کس چیز کی کمی ہے مسلمانوں میں ۔ وہ کہنے لگے کہ میں نے یہ رائے قائم کی ہے کہ قرآن شریف کے ترجمہ کا مطالعہ کیا کریں ۔ میں نے کہا کہ میں متفق ہوں اس میں ۔ مگر میں آپ کے ساتھ تھوڑا سا اختلاف کروں گا ۔ چنانچہ میں نے وعظ میں اس اختلاف کو بیان کیا اور چونکہ میں نے سب دعاوی پر دلائل پیش کئے تھے ۔ اس لئے سب کو ماننا ہی پڑا ۔ میں نے بیان کیا کہ کسی سے ترجمہ نہ پڑھنے اورخود دیکھنے میں بڑی بڑی خرابیاں ہیں ۔ رہابینات وغیرہ جو الفاظ ائے ہیں قرآن مجید میں سو میں نے کہا کہ اول تو وہ مبادی حاصل کرنے والے کی نسبت ہے ۔ دوسرے علوم قرآن کی نصیحت کے دو جز وہیں ایک ترغیب ترہیب دوسرا تحقیقات ۔ سو ترغیب وترہیب کا جز و تو مشکل نہیں۔ مثلا قیامت کے لئے تیاری کرو ، دوزخ سے بچنے کی سبیل کرو جنت حاصل کرنے کی فکر کردو ۔ غیرہ وغیرہ یہ تو دقیق نہیں اس کے اعتبار سے مطلقا بینات ہے باقی تحقیقات کا جز و سو وہ مشکل ہے اور میں نے واقعات سے یہ بھی ثابت کیا تھا کہ صحابہ تک کو غلطی واقع ہوتی تھی تو آپ سے پوچھتے تھے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ سے زیادہ فہیم کون ہوگا خود آپ کے بارے میں حق فرماتے ہیں ثم ان علینا بیانہ کہ ہمارے ذمہ ہے اس کا بیان کرنا سو جب آپ کو بھی ضرورت تھی بیان کی تو اوروں کی تو کیا حقیقت ہے ۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس سے معلوم ہوا کہ علاوہ قرآن شریف کے کوئی دوسری چیز بھی ہے جس سے اس کی تبیین و توضیح ہوتی ہے ۔ کیا کہوں مخاطبین عوام تھے اگر عالم ہی عالم ہوتے تو اس مضمون کو زیادہ مفصل بیان کرتا ۔ میرا ارادہ دو گھنٹہ بیان کا تھا ۔ مگر ساڑھے چار گھنٹہ بیان ہوا ۔ میں نے اس حدیث سے بھی استدلال کیا تھا کہ حضرت علی سے کسی نے پوچھا تھا کہ کیا آپ کو رسول ﷺ نے کوئی چیز خاص بھی دی آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ مگر ایک فہم جو کسی شخص کو قرآن میں نصیب ہوتی ہے سو اگر یہ فہم مشترک ہے تو تخصیص کی کیا وجہ ہے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کے متعلق کوئی خاص درجہ ہے فہم کا ۔ اور میں نے نئے ترجمے (ڈپٹی نذیر احمد صاحب کے ترجمے ) کا نا کافی ہونا بھی بیان کیا تھا اور اس کی غلطیاں بیان کی تھیں ۔ مگر پھر بھی یہ بات کہ ان مضامین کے دماغ میں آنے کے واسطے بھی ضرورت ہے فہم کی ۔