ملفوظات حکیم الامت جلد 19 - یونیکوڈ |
|
ہیں کہ ان کو یہ بات گوارا نہ ہوگی تو اس سے ان کی آزادی میں خلل ہوگا ۔ دوسرے اطراف وجوانب سے نہیں معلوم کس قدر لوگ آئیں ۔ اتنا بار ڈالنے سے میں شرماؤں گا ۔ اس لئے یہ مناسب ہے کہ آپ اپنے ذمہ نہ رکھیں ۔ بلکہ ہر شخص اپنا خرچ کرے اس میں راحت رہے گی ۔ آپ کو بھی اور احباب کو بھی چنانچہ وہ ایسے مخلص تھے کہ انہوں نے عرض کیا کہ جس میں آپ کو راحت ہو ۔ اور جمہ احباب کو راحت ہو ۔ اس میں مجھے بھی راحت ہے ۔ اس کے بعد حضرت نے فرمایا کہ اب یہ رائے قائم کرنی چاہئے کیا صورت اختیار کی جائے چنانچہ اس صورت میں مختلف رائیں ہوئی ۔ حضرت نے فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ ایک وقت کے کھانے کے مناسب خرچ کی ایک آدمی کیلئے ایک مقدار معین کرکے ہر شخص سے لے لیا جائے اور اس وقت کے مناسب کہ گرانی کا زمانہ ہے میرے نزدیک فی وقت دو آنے مناسب ہیں اور ایک صاحب کے پاس جمع ہوجائے اور اس کا حساب اس کے پاس رہے اور جو صاحب وقتافوقتا باہر سے آئیں ان سے یوں کہہ دیا جایا کرے کہ کھانے کا انتظام یہاں اس صورت سے ہے اگر آپ کو کھانے کا انتظام کرنے میں دوسرے طریقہ سے سہولت ہوتو ویسا کرلئجئے ورنہ یہاں کا انتظام موجود ہی ہے ۔ جس میں آپ کو راحت معلوم ہو ویسا کرلیجئے کوئی آپ پر بار نہیں ڈالا جاتا کہ یہ ہی صورت اختیار کی جائے ۔ چنانچہ یہی طریقہ اول سے آخر تک عمل میں رہا جب کوئی صاحب باہر سے آئے حضرت والا نے ان سے فرمادیتے کہ آپ حکیم صاحب سے مل کر لیجئے چنانچہ میں ان سے صورت حال کے بارہ میں عرض کردیتا ۔ چونکہ اس سے بہتر صورت راحت کی بظاہر نہ تھی اس لئے سب اسی کو اختیار کرتے تھے اور جتنے وقت کیلئے ان کو کھانا منظور ہوتا فی وقت دو آنے کے حساب سے جمع کردیتے ( میرے پاس ) ۔ آخر تک یہی قصہ رہا ۔ اس میں یہ بھی ہوتا تھا کہ بعض صاحبوں نے داخل تو کیا دوروز کا خرچ ۔ اورایک روز رہ کر ان کا ارادہ جانے کا ہوگیا تو خرچ زائدان سے وصول ہوا تھا وہ ان کو روانگی کے وقت واپس دیا جاتا ۔ واللہ العزیز اس صورت مجوزہ حضرت والا میں وہ راحت رہی کہ بیان میں نہیں آسکتی ۔ جن صاحب کا ذکر ہوا ہے وہ ایسے مخلص ہیں کہ جس طریقہ میں حضرت کو راحت ہوتی وہ اسی کو بطبیب خاطر منظور فرمالیتے تھے ۔ ایسے صاف دل حضرات میں نے بھی کم دیکھے ہیں ۔ میں تو یہ بھی حضرت ہی کے فیض کا اثر سمجھتا ہوں میں نے ان میں کوئی بات بناوٹ کی نہیں دیکھی ۔ جو ان