تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ اپنے قابومیں رہے اور غصہ کا علاج کرے۔ بعض جاہل لو گ تو یہاں تک غضب کرتے ہیں کہ غصہ میں طلاق دیدیتے ہیں اور اس کو طلاق نہیں سمجھتے، کہتے ہیں کہ ہم نے غصہ میں کہہ دیاتھا۔ صاحبو! یہ مسئلہ کان کھول کر سن لیجیے کہ غصہ تو غصہ ہنسی سے بھی طلا ق ہو جاتی ہے۔ اس میں نص (حدیث) موجود ہے۔ ثلٰث جدھن جدٌ ھزلھن جدٌ۔ تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں ہنسی اور بے ہنسی سب کا ایک حکم ہے ان میں سے ایک طلاق بھی ہے۔ کوئی ہنسی میں بلا ارادہ اپنی بیوی سے کہہ دے کہ میں نے طلاق دی تو طلاق ہوجا تی ہے۔ ایک دفعہ یا دودفعہ دی تو رجعی ہوتی ہے۔ یعنی اس سے عدت کے اندر رجوع کرنا ممکن ہے۔ جب کہ وہ مدخول بہا ہو (یعنی شوہر اس کے قریب ہوچکا ہو تو) رجوع کرنے سے نکاح بد ستور رہے گا۔ اور اگر تین دفعہ کہہ دیا تو مغلظہ طلاق ہوگئی اب کو ئی صورت اس نکاح کے لوٹنے کی نہیں رہی۔ گھر گھر ستی کا خاتمہ ہوگیا یہی حکم ہنسی کا ہے اور یہی حکم غصہ کی طلاق کا ہے۔ (غوائل الغضب، صفحہ ۲۱۳)شوہر بیوی دونوں کا قصور اور دونوں کو تنبیہ : عورتیں بھی اس حکم کو اچھی طرح سن لیں یہ بھی عام مرض ہے کہ عورتوں میں مزاج شناسی بہت کم ہوتی ہے۔ بسا اوقات مرد ناخوش ہوتا ہے اور بیویاں اس کو جواب دیئے چلی جاتی ہیں۔ بات کو دباتی نہیں بڑھائے جاتی ہیں حتیٰ کہ اس وقت وہ غصہ میں طلاق دے بیٹھا ہے۔ ایسے واقعات بہت ہو ئے ہیں کہ (غصہ میں طلاق ہوگئی) بعد میں دونوں پچھتائے اور صرف ان کے گھر کو نہیں بلکہ دونوں خاندانوں کو آگ لگ گئی۔ بعض عورتیں تو ایسی بے ہودہ ہوتی ہیں کہ کھڑے بیٹھے مرد سے کہتی ہیں کہ طلاق دے دے بس اور کیا کرے گا۔ عورتیں اور مرد سب یادرکھیں کہ طلاق کا لفظ ہی زبان پر نہ آنے دیں ہنسی میں ہویا غصہ میں ) یہ لفظ ایسا ہے جیسے بھر ی ہوئی بند وق کہ گھوڑے کی کیل دبادی کہ ہنسی میں دباؤ جب بھی گولی لگ جائے گی اور غصہ میں آباؤ جب بھی گولی لگ جائے گی۔ غصہ میں بے قابو ہوجانے کو شریعت یا کوئی قانون عذر قرار نہیں دیتا۔ اپنے غصہ کو قابو رکھئے اور وہ تدبیریں پہلے سے معلوم کیجیے جو اس وقت کام دیں (جن سے غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے) شریعت نے یہ تعلیمیں بے کارنہیں دیں آپ ہی کی کام کی چیزیں سکھائی ہیں۔ (غوائل الغضب ملحقہ آداب انسانیت صفحہ ۲۱۳)ایسی نا اتفاقی کہ نباہ کی کوئی صورت نہ ہو تو طلاق دینا ہی مصلحت ہے :بعض صورتوں میں طلاق دینا واجب ہے : بعض لوگ تو طلاق دینے کو اس قد رعیب اور عار کی بات سمجھتے ہیں کہ خواہ کیسی ہی