تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیا ضرورت ہے نماز وغیرہ کی۔ اس لیے میں نے کہا کہ یہ چینریں اپنی ذات میں دین نہیں ہیں۔ یہ اعمال نمازروزہ کے قائم مقام نہ ہوں گے۔ بعض عورتیں اسی کو بڑی عبادت سمجھتی ہیں کہ گھرکا کام کرلیا، شوہر کو آرام پہنچا دیا، خانہ داری کا بندوبست (گھر کا انتظام) کرلیا بس آگے اور کچھ نہیں۔بہت سی عورتیں ایسے مزاج کی بھی ہیں : خوب سمجھ لیجیے کہ نماز روزہ تو اپنی ذات کے اعتبار سے دین ہے اور یہ چیزیں اپنی ذات کے اعتبار سے دین نہیں بلکہ یہ ملحق بہ عبادت (یعنی عبادت کے ساتھ لا حق وشامل) ہو جاتی ہیں قائم مقام نہیں ہوسکتیں، کہاں نماز روزہ کہاں امورخانہ داری۔ مگر ہاں ایک خاص اعتبار سے دین ہے۔ اب رہی یہ بات کہ وہ نیت کیا ہوگی جس سے یہ چیزیں عبادت ہوسکیں تو وہ نیت یہ ہو گی کہ ہم شوہر کی خدمت کریں گے، اس کو آرام پہنچا ئیں گے، تو اس کا حق ادا ہوگا۔ بس اس نیت سے دنیا دین ہوجائے گی۔ (۱)نوکرانی ہوتے ہوئے گھر کا کام خود بھی کرنا چاہیے : بلکہ میں کہتا ہوں کہ جن کو خدا نے مامائیں اور نوکر دئیے ہوں وہ اپنے ہاتھ سے بھی کچھ کام کیا کریں۔ یہ نہ ہوکہ دن رات پلنگ ہی توڑتی رہیں اور کسی کا م کو ہاتھ نہ لگائیں، کیوں کہ اس طرح توکام کی عادت چھوٹ جاتی ہے اور آدمی ہمیشہ کے لیے محتاج بن جاتا ہے اور کام کرتے رہنے سے کام کی عادت بھی رہتی ہے اور قوت وصحت بھی اچھی رہتی ہے حدیث ہیں ہے۔ المومن القوی خیر من المومن الضعیف وفی کل خیر کہ قوی مسلمان کمز ورمسلمان سے اچھا ہے۔ اور یوں توسب ہی اچھے ہیں۔ تو ہمت کی بات یہ ہے کہ گھر کے کام کو دیکھو۔ نوکروں باندیوں سے اپنی نگرانی میں کام لو۔ اور کبھی کسی کام کو اپنے ہاتھ سے بھی کرلیا کرو۔ اور اس کے ساتھ کچھ وقت نکال کر نفلیں اور تسبیحیں پڑھو۔ اگر زیادہ وقت نہ ملے توچلتے پھرتے اللہ اللہ کرتی رہا کرو۔ (۱)گھرکا کام کرنے میں خود عورتوں کافائد ہ ہے : ایک صاحب نے عرض کیا کہ عورتیں خود ہی گھر کے اس قدرکام کرتی ہیں، مشقتیں اٹھاتی ہیں کہ کسی وقت چین سے نہیں بیٹھتیں تو وہ خود ہی اپنی راحت نہیں چا ہتیں۔ فرمایا ان کے ایسے کرنے میں ان کی ذاتی مصلحت (اور فائدہ) ہے وہ یہ ہے کہ اس سے ان کی تندرستی ٹھیک رہتی ہے مثلاََکھا نا پکانا ہے، پیسنا ہے، کوٹنا ہے، خود ہمارے گھروں میں سب کام اپنا اپنے ہاتھ سے کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ اگر ضرورت ہو توسیر دوسیرپیس بھی لیتی ہیں۔ سو اگر وہ اپنی رائے اور مصلحت سے مشقت اختیا ر کریں تو یہ دوسری بات ہے مگر ان پر ظلم کی راہ سے مشقت ڈالنا نہایت بے رحمی اور بے مر وتی کی بات ہے۔ (۲)