تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سسرال کی ذرا ذرا سی بات آکر ماں سے کہنا اور ماں کا خود کھود کھود کر پوچھنا بڑی بری بات ہے اسی سے لڑائیاں ہوتی ہیں جھگڑے کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کے سوا اور کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر شوہر کے ماں باپ زندہ ہوں اور وہ روپیہ سب ان ہی کو دے تمہارے ہاتھ نہ رکھے تو کچھ برا نہ مانو۔ بلکہ اگر تم کو دے بھی تب بھی عقلمندی کی بات یہ ہے کہ تم اپنے ہاتھ میں نہ لو، اور یہ کہو کہ ان ہی کو دیں تاکہ ان کادل میلا نہ ہو۔ اور تم کوبرا نہ کہیں کہ بہونے لڑکے کو اپنے پھندے میں کرلیا۔ (بہشتی زیور، صفحہ ۴۰)ساس نندوں کے ساتھ اتحادواتفاق اور حسن سلوک : قرآن مجید میں حق تعالیٰ نے نسب کے ساتھ علاقہ مصاہرۃ (سسرال رشتہ) کو بھی ذکرفرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ساس اور سسرکابھی کسی قدرحق ہوتا ہے۔ اس لیے ان تعلقات میں بھی احسان واخلاق کی رعایت کسی قدرخصوصیت کے ساتھ رکھنا چاہیے۔ جب تک خسر اور ساس زندہ رہیں ان کی خدمت کو ان کی تابع داری کو فرض جانو اور اسی میں اپنی عزت جانو۔ اور ساس نندوں سے الگ ہوکر رہنے کی ہرگز فکرنہ کرو کہ ساس نندوں سے بگاڑ ہوجانے کی یہی جڑہے۔ خودسوچوکہ ماں باپ نے اس کوپالا پوسا اور اب بڑھاپے میں اس آسرے پر اس کی شادی (بیاہ) کیا کہ ہم کو آرام ملے۔ اور جب بہوگھرآئی توگھرآتے ہی یہ فکرکرنے لگی کہ میاں آج ہی سے ماں باپ کو چھوڑدیں پھر جب ماں کو معلوم ہے کہ یہ بیٹے کو ہم سے چھڑاتی ہے تو فساد پھیلتا ہے۔ (بہشتی زیور، صفحہ ۴۱) لیکن یہ سب اخلاقی تعلیم ہے ورنہ شرعاََعورت کو حق حاصل ہے کہ اپنی ساس و سسر سے علیحدہ رہنے کا مطالبہ کرے اور شوہر پر اس مطالبہ کا پورا کرنا لازم ہے بلکہ ساتھ رہنے میں اگر نا اتفاقی کا ظن غالب ہو جیسا کہ آج کل عموماًہوتا ہے۔ اس وقت اخلا ق کا مقتضی بھی یہی ہے کہ علیحدہ ہی رہا ئش اختیار کی جائے۔ مزید تفصیل باب۱ میں ملا حظہ فرمائیں۔ ض ض ض