تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے جو کام کرتی ہیں بے سوچے سمجھے اور بلاغور و فکر کے کرتی ہیں۔ پھر ضد کا مادہ ان میں اس قدر ہے کہ جو چڑھ گئی سو چڑھ گئی۔ معلوم بھی ہوجائے کہ یہ کام مضر و نقصان دہ ہے، مگر اس کو چھوڑ نہیں سکتیں۔ چناں چہ دیکھا ہوگا کہ ذرا ذرا سی بات پر عورتیں کنویں میں کود پڑتی ہیں (آگ لگالیتی ہیں ) اس کا سبب کم عقلی اور ضد ہی تو ہے۔ پس عورتوں کی سلامتی اس میں ہے کہ ان کو تابع بنایا جائے۔ ان کے اوپر کوئی ایسا حاکم مسلط رہے جو ان کو ہر وقت سنبھالتا رہے۔1 (1 التبلیغ: ۷/۱۰۰میاں بیوی میں اتحاد و اتفاق اور گھر کا نظام کس طرح قائم رہ سکتا ہے !: خوب یاد رکھو! دنیا اور دین دونوں کا نظام اسی طرح قائم رہ سکتا ہے کہ ایک تابع (اطاعت کرنے والا ہو) اور ایک متبوع (جس کی اطاعت کی جائے)۔ لوگ آج کل اتحاد و اتفاق کے لیے بڑی لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں اور تجویزیں پاس کرتے ہیں مگر جڑ کو نہیں دیکھتے۔ اتحاد و اتفاق کی جڑ یہ ہے کہ ایک کو بڑا مان لیا جائے اور سب اس کے تابع ہوں۔ جس جماعت میں متبوع اور تابع کوئی نہ ہو، سب مساوات ہی کے مدعی (دعوے دار) ہوں۔ ان میں کبھی اتحاد نہیں ہوسکتا۔ جب بات سمجھ میں آگئی تو مساوات کا خیال تو عورتوں کو اپنے دل سے بالکل نکال دینا چاہیے، کیوں کہ یہی فساد کی جڑ ہے۔ اب دو ہی صورتیں ہیں۔ یا تو عورتیں متبوع (حاکم) اور مرد تابع (محکوم و ماتحت) یا مرد متبوع اور عورتیں تابع ہوں۔ اس کا فیصلہ انصاف کے ساتھ خود عورتوں ہی کو اپنے دل سے کرلینا چاہیے کہ متبوع بننے کے قابل وہ ہیں یا مرد؟ سلیم الفطرت عورتیں کبھی اس کا انکار نہیں کرسکتیں کہ عقل میں اور طاقت میں مرد ہی بڑھے ہوئے ہیں۔ وہی عورتوں کی حفاظت و حمایت کرسکتے ہیں۔ عورتیں مردوں کی حفاظت نہیں کرسکتی۔ پس مردوں ہی کو متبوع (حاکم) اور عورتوں کو تابع ہونا چاہیے۔ یہی شریعت کا فیصلہ ہے۔ چناں چہ ارشاد ہے: {اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ}1 (1 النساء: ۳۴) مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔میاں بیوی میں باہمی مودۃ و رحمت : {وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃًط}1 (1 الروم: ۲۱ اور کردیا اللہ نے تمہارے درمیان آپس میں محبت و ہمدردی۔ جو یہ فرمایا ہے کہ تمہارے درمیان محبت و ہمدردی پیدا کردی۔ میں کہتا ہوں کہ مودۃ یعنی رحمت کا زمانہ تو جوانی کا ہے۔ اس وقت جانبین میں جوش ہوتا ہے اور ہمدردی کا زمانہ ضعیفی (کمزوری و بڑھاپے) کا ہے، دونوں کا۔ اور دیکھا بھی جاتا ہے کہ ضعیفی کی حالت میں سوائے بیوی کے دوسرا کوئی کام نہیں آسکتا۔1 (1 نصرۃ النساء: ص۵۵۱