تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ اگر روئیداد مقدمہ غیر مسلم مرتب کرے اور مسلمان حاکم فیصلہ کرے یا بالعکس تب بھی فیصلہ نافذ نہ ہوگا۔ (الحیلۃ الناجزۃ صفحہ۴۴) اور اگر فیصلہ کسی جماعت کے سپر دکیا جائے جیسا کہ بعض مرتبہ ججوں کی جوری کوئی غیر مسلم جج اور مجسڑیٹ اور ممبر بھی اس کا رکن ہو تو شرعاًاس جماعت کا فیصلہ معتبر نہیں۔ ایسے فیصلہ سے تفریق وغیرہ ہرگز صحیح نہ ہوگی۔ (الحلیۃ الناجزۃ صفحہ ۴۵)قاضی کا تقرر اور اس کی تدبیر : بہت سے مسائل میں شرعاحکم مسلم کافیصلہ شرط ہے جس کو قضاء قاضی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پھر کتاب القضاء میں اس قاضی کے شرائط میں سے اسلام کو کہا ہے گو اس کا تقرر غیر مسلم حکام کی طرف سے ہو۔ درمختار اور ردالمختار میں اس عموم کی تصریح موجود ہے جیسے مفقود یعنی بے نشان (لاپتہ) شخص کی زوجہ کے نکاح اوّل کے فسخ کرنے میں، یاخیار بلوغ کی بناء پرفسخ کرنے میں اور بھی بہت سے مسائل ہیں۔ سو اگر حکام سے یہ درخواست کی جائے کہ وہ ہرضلع یاہر تحصیل میں علماء اسلام کے مشورہ وانتخاب سے ایک عالم متدین ومتیقظ (دین دارہوشیار) بنام قاضی محض ایسے مقدمات کی سماعت کے لیے مقرکردیں۔ اور اس کی تنخواہ مسلمانوں سے اپنے طور پر وصول کرلی جائے۔ اگر یہ صورت ہوجائے تو مسلمانوں کو ایسے معاملات میں بہت آسانی ہوجائے ورنہ بڑی تنگی پیش آتی ہے۔ مثال کے طورپر احقرنے زن مفقود (لاپتہ شخص کی کی بیوی کے بارے میں ) ایک جگہ فتویٰ لکھا کہ بعد القضاء میعاد مقرر عند الامام مالک (یعنی امام مالک کی مقر کردہ مدت پوری ہوجانے کے بعد) حکام سے یہ درخواست کرو کہ وہ خاص اس مقدمہ کی سماعت کا اختیار کسی عالم کو دے دیں اور وہ عالم یہ کہہ د ے کہ میری رائے میں وہ مفقودمرگیا ہے۔ پھر اس کہنے کے بعد وہ عورت عدت وفات پوری کرکے نکاح ثانی کرلے۔ چناں چہ ان لوگوں نے اطلاع کی کہ ہم نے ضلع کے حاکم سے کہاتھا انہوں نے جواب دیا کہ ہم مذہبی معاملات میں دخل نہیں دیتے تو دیکھئے! کیسی تنگی پیش آئی۔ اور بعض مواقع میں ظاہراًتوتنگی نہیں مگر شرعاً تنگی ہوتی ہے۔ مثلاًخیار بلوغ میں ایک حاکم غیر مسلم نے نکاح اول کے فسخ ہونے کا حکم دے کرنکاح ثانی کی اجازت دے دی تو ظاہراً کارروائی ہوگئی مگر شرعایہ کارروائی معتبر نہیں ہوئی یعنی اس سے نکاح اوّل فسخ نہیں ہوا اور نکاح ثانی صحیح نہیں ہوا۔ تو تمام عمر ناجائز ہم بستری کا گناہ زوجین کو رہا۔ اس لیے اس کی کوشش تو بہت زیادہ ضروری ہے۔ حلال وحرام کا قصہ ہے جو بہت نازک ہے اور اس کی ضرورت تمام قوم کے لیے عام ہے اس لیے اس کا اہتمام بہت زیادہ موجب ثواب ہوگا۔ اور اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اہل قلم اس کی مصلحتوں (ضرورتوں ) کو ظاہر کریں اور پھر درخواست لکھ کر اس پر کثرت سے دستخط کراکر پیش کریں اور حکومت سے منظور کرائیں۔ امید ہے کہ گورنمنٹ ضرور اس پر توجہ کرے گی۔ (بوادارلنورجلد ۱