تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوگی، لیکن چوں کہ شوہر پر واجب تو ہے نہیں اگر شوہر نے نہ دیا تو عورت اپنے زیوربیچ کریہ سب حقوق اس سے ادا کرے شوہر کے مال سے اس کی رضا کے بغیر ان عبادات میں صرف کرنا جائز نہ ہوگا عورتیں اس میں سخت بے احتیا طی کرتی ہیں۔ شوہر کے مال کا اپنے کو بالکل مالک سمجھتی ہیں یہ باطل اور باطل غلط ہے۔بیوی کی دلجوئی کرنا اور تکلیف دہ بات پر صبرکرنا بھی ان کا حق ہے : صرف نان و نفقہ ہی عورت کا حق نہیں ہے بلکہ یہ بھی حق ہے کہ ان کی دلجوئی کی جائے۔ حدیث میں ہے: استوصوابالنسآء خیرًا فانماھن عوان عندکم ’’عورتوں سے اچھا برتاؤ کرو کیوں کہ وہ تمہارے پاس مثل قیدی کی ہیں۔ ‘‘ اور جو شخص کسی کے ہاتھ میں قیدہو، اور ہرطرح اس کے بس میں ہو اس پرسختی کرنا جواں مردی کے خلاف ہے۔ دلجوئی کے معنی یہ ہیں کہ ایسی کوئی بات نہ کرو جس سے اس کا دل دکھے اس کو تکلیف ہو۔ اور نان نفقہ وغیرہ ضابط کے حقوق کو تو سب جا نتے ہیں۔ اور وہ محدود حقوق ہیں، لیکن دلجوئی ایسا مفہوم ہے جس کی تحدید (حدبندی) نہیں ہوسکتی کہ جس بات سے عورتوں کو اذیت ہو وہ مت کرو۔ بھلا اس کی تحدید کیسے ہوسکتی ہے اب کہا جاسکتا ہے کہ عورت کے حقوق غیرمحدودہیں۔ (۱)دلجوئی کے خاطر جھوٹ بولنا : بیو ی کا صرف یہی حق نہیں کہ اس کو کھا نا کپڑادید ے۔ بلکہ اس کی دلجوئی بھی ضروری ہے۔ دیکھئے! فقہا ء کرام نے بیوی کی دلجوئی کو یہا ں تک ضروری سمجھا ہے کہ اس کی دلجوئی کے لیے جھوٹ بولنا بھی جائزفرمایا ہے۔ اس سے اس امر کی کتنی بڑی تاکید ثابت ہوتی ہے اور یہا ں سے بیوی کے حق کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس کی دلجوئی کے لیے خدا نے بھی اپنا حق معاف کردیا۔ (۲) فرمایا اپنی عورتوں کی دلجوئی کرنا اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ ان کو یہ خیال نہ ہو کہ اگر ہم بھی پردہ نہ کرتے تو دوسری بے پردہ عورتوں کی طرح ہمارے کام بھی آسانی سے پورے ہوتے۔ (اس لیے) ان کی خدمت کرے تاکہ وہ یقین کرلیں کہ اگر ہم پر دہ نہ کرتے تو مرد ہماری اتنی خدمت نہ کرتے۔ حاصل یہ کہ مردکے طرز عمل سے عورتوں کو پردہ کا موجب راحت ہونا معلوم ہوجائے اور بے پردگی کی ترجیح کا وسوسہ بھی نہ آئے۔ (۳)دلجوئی کا طریقہ :