تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چناں چہ بیماری کے زمانہ میں بیوی سے زیادہ کوئی خدمت نہیں کرسکتا۔ ایک بوڑھے میاں نے ستر اسّی برس کی عمر میں پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کا ارادہ کیا۔ حالاں کہ ان کی بہو بیٹیاں بہت تھیں۔ سب نے منع کیا کہ تمہاری خدمت کے لیے ہم موجود ہیں نکاح کی کیا ضرورت ہے۔ بڑے میاں نے کہا کہ بیوی کے برابرکوئی خدمت نہیں کرسکتا اور موقع پر میں تم کو بتلادوں گا۔ چناں چہ نکاح ہوا اور چند سال کے بعد بڑے میان کو ایک مرض ہوا۔ اس میں دست آنے لگے تو ساری بہو بیٹیاں بدبو سے گھبرا کر الگ ہوگئیں اور بیوی کی یہ حالت تھی کہ ان کو پیروں پر بٹھلا کر پاخانہ کراتی اور استنجا کراکے کپڑوں کو پاک و صاف کرتی۔ دن میں بیس پچیس دست بھی آتے تو ہر دفعہ اس کو پاک و صاف کرکے لٹاتی تھی تو اس وقت بڑے میاں نے کہا کہ میں نے اس دن کے واسطے نکاح کیا تھا۔ دیکھ لو آج اس کے سوا کوئی کام نہیں آیا۔ پس لباس کی طرح مرد کو عورت سے استغناء نہیں۔ عورت کو مرد سے استغناء نہیں۔ مرد عورت کا معاون ہے عورت مرد کی خادم ہے۔میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے تابع : مرد کو عورت اور عورت کو مرد سے یعنی تشبیہ باللباس یعنی (لباس سے تشبیہ دینے میں ) ایک نکتہ اور سمجھ میں آیا، وہ یہ کہ لباس تابع ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورتیں مردوں کے تابع ہیں۔ پھر لباسیت نساء (عورتوں کے لباس ہونے کا) ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تابیعت (تابع ہونے میں ) عورتیں مقدم ہیں۔ یہاں سوال یہ ہوگا کہ آگے تو مردوں کو بھی عورتوں کا لباس کہا گیا ہے تو کیا وہ بھی عورتوں کے تابع ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ایک درجہ میں وہ بھی تابع ہیں، لیکن ان کی تابیعت بعد میں ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ عورتیں تو فطرتاً اور قانوناً مردوں کے تابع ہیں اور مرد محبت کی وجہ سے تابع ہوجاتے ہیں۔1 (1 رفع الالتباس: ص۱۷۰میاں بیوی کے تعلق کی حیثیت : عورت بے شک محکوم ہے، لیکن وہ ایسی محکوم نہیں ہے جیسی اماء لونڈی (نوکر نوکرانی) محکوم ہوتی ہے۔ بلکہ اس کو مرد کے ساتھ دوستی کا بھی تعلق ہے اور اس تعلق کا خاصہ ہے کہ اس میں ایک قسم کا ناز بھی ہوتا ہے۔ اس تعلق کے ساتھ مرد کا عورت پر وہ رعب نہیں ہوسکتا جو نوکروں پر ہوا کرتا ہے۔ مرد یہ چاہتے ہیں کہ بیوی پر بھی اس طرح کا رعب جمائیں جس طرح نوکر پرجمایا کرتے ہیں۔ یہ نہایت سنگدلی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اس تعلق کی حقیقت کو نہیں سمجھا۔ صاحبو! یہ وہ تعلق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بھی بعض دفعہ ازواج مطہرات ناز میں آکر برابر کے دوستوں کا سا برتاؤ کرتی تھیں۔ حالاں کہ حضور ﷺ کے برابر کون ہوگا۔ حضور ﷺ ہر کمال میں بے نظیر تھے۔ کوئی آپ ﷺ کے برابر کا نہ تھا۔ نیز اس کے ساتھ آپ ﷺ صاحب سلطنت تھے۔ سلطنت کا رعب بھی آپ ﷺ میں بہت زیادہ تھا۔