تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جڑ ہے کہ دوسرے عزیزوں کے ساتھ اتنا فساد نہیں ہوتا جتنا اس میں ہوتا ہے۔1 (1 اصلاح انقلاب: ۲/۱۸۸حضرت تھانوی ؒ کا قصہ اور ایک عمدہ نمونہ : فرمایا: والد صاحب مرحوم نے مجھے شادی کرکے فوراً علیحدہ کردیا تھا اور ہمارے یہاں اکثر یہی قاعدہ رہا ہے کہ جب بڑے ہوگئے، علیحدہ کردیا اور رہنے کو مکان اور اپنے پاس سے سب خرچ دیا۔ ہمیں غیرت آئی اور نوکری کی فکر ہوئی۔ اللہ کا شکر کہ اس کا انتظام ہوگیا اور پچیس روپے کی تنخواہ مقرر ہوئی۔ میں سوچا کرتا تھا کہ پچیس روپے کیا کریں گے۔ ہم تو سمجھا کرتے تھے کہ بس دس روپے کی تنخواہ کافی ہے۔ چند روز میں تنہا رہا، پھر گھر میں سے وہیں (کان پور) بلالیا۔ پھر تجربہ سے معلوم ہوا کہ وہ پچیس روپے ایسے زائد نہ تھے۔ سب خرچ ہوجاتے تھے۔ گھر میں ہمیشہ مجھ سے یہ کہا کرتی کہ ایک مکان رہنے کے لیے جدا بنالو، لیکن میں ان کو ٹال دیتا تھا کہ چند روزہ زندگی کے لیے کیا مکان بناتی ہو۔ جب میں حج کرنے گیا اور بعد گھر میں سے بھی پہنچ گئیں تو انہوں نے حضرت جی صاحب ؒ سے شکایت کی کہ میں گھر بنوانے کو کہتی ہوں اور یہ گھر نہیں بنواتے۔ حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ تمہارے گھر میں گھر بنوانے کو کہتی ہیں۔ کیا حرج ہے۔ یہ تو اچھی بات ہے۔ اپنے خاص گھرمیں آرام ملتا ہے۔ میں نے جی میں کہا، مکان بنوانے کی ترکیب اچھی نکالی ہے۔ میں نے عرض کردیا۔ بہت اچھا بن جائے گا۔ واپسی کے بعد مکان بن گیا تو میں نے حضرت کو قصداً لکھا۔ حضر ت نے فرمایا: گھر مبارک ہو۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ گھر بنانے کے بعد معلوم ہوا کہ اس کے بغیر راحت نہیں ہوتی۔ باقی اگر کسی کو تنگی ہو او روہ نہ بنا سکے تو اور بات ہے۔1 (1 ملفوظات جدید ملفوظات: ص ۱۲۷باب: ۳ شوہر بیوی کی چیزوں میں صفائی معاملات کی ضرورت عرب کا دستور : اہل عرب کی عادت تھی کہ اثاث البیت (گھر کے سامان) میں سے ہر چیز شوہر اور بیوی کے درمیان بٹی ہوئی تھی۔ عورت کی ملک الگ اور مرد کی الگ۔ جیسے آج کل یورپ میں ہے کہ صاحب کی چیزیں الگ ہوتی ہیں، میم صاحب کی الگ۔ صفائی معاملات کا یہ طریقہ ہمارے یہاں تھا۔ جو اب یورپ میں ہے۔ ہندوستان میں بھی یہی رواج ہوجائے تو اچھا ہے۔1 (1 التبلیغ: ۷/۴۰