تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیا جواب دیں کیوں کہ وہ تو رسم و رواج کے موافق اس واسطے لائی تھی کہ گھر کے کام آئے گا۔ اس سے کیا بحث کہ کس کی ملک ہوگا جب وہ پہلے سے کوئی نیت کرکے لائی ہی نہیں تھی تو میرے سوال کے جواب میں کیا کہتی۔ آخر بہت سوچنے کے بعد کہا کہ میں نے تو دونوں کو دیا ہے۔ میں نے کہا خیر یہی معلوم ہوگیا کہ کٹورا مشترک ہے۔1 (1 التبلیغ: ۷/۴۶شوہر، بیوی کو ایک دوسرے کا سامان بغیر اس کی مرضی کے استعمال کرنا جائز نہیں : (شوہر، بیوی) دونوں کی ملک جدا جدا ہے۔ یہ شوہر کے لیے بھی ظلم ہوگا کہ عورت کے مال میں بلا اس کی رضامندی کے تصرف کرے اور عورت کے لیے بھی خیانت ہوگی۔ اگر مرد کے مال میں بلا اس کی رضامندی کے تصرف کرے اور رضامندی سے مراد یہ ہے کہ قرائن قو یہ سے مالک کا یقینی طور پر دلی رضامندی معلوم ہوجائے گی۔1 (1 اصلاح انقلاب: ص۱۸۶ اذن بطیب نفس (دلی رضامندی) کی حقیقت یہ ہے کہ دوسرے کو عدم اذن (اجازت نہ دینے) پر بھی قدرت ہو۔1 (1 انفاس عیسیٰ: ص۳۱۵ ملحقہ آداب انسانیت: ص ۴۹۴شوہر کے مال کو جوڑنا اور بغیر شوہر کی اجازت کے خرچ کرنا جائز نہیں : بعض عورتیں رقمیں جوڑ جوڑ کر خاوند سے چھپا کر اپنے گھروں کو بھرتی ہیں۔ کسی بہانے سے باپ کو دے دیا۔ کسی بہانے سے ماں کو دے دیا۔ یہ سخت گناہ ہے۔ مرد کے مال میں عورت کے عزیزوں کا شرعاً کوئی حق نہیں۔ اگر دینا ہے تو مرد سے پوچھ کر دینا چاہیے۔ خاوند جو مال عورت کو بالکل بطور ملک دے ڈالے اس میں تو بلا اجازت عورت کو صرف کرنا جائز ہے اور جو مال اس کو ہبہ نہ کرے بلکہ گھر کے خرچ کے واسطے دے یا جمع رکھنے کے لیے دیایا عورت نے چپکے سے جوڑ لیا ہو، اس میں شوہر کی اجازت کے بغیر صرف کرنا ہرگز جائز نہیں حتیٰ کہ سائل کو دینا بھی جائز نہیں۔ کسی کے ساتھ احسان کرنے یا صدقہ کرنے میں بھی شرط یہ ہے کہ وہ احسان شریعت کے موافق ہو شریعت کے خلاف نہ ہو۔ مثلاً بیوی کے پاس خاوند کا روپیہ ہے اور بیوی کو کسی پر رحم آجائے تو اس کو ان روپوں میں سے دینا جائز نہیں اور اگر دے دیا توگناہ گار ہوگی۔ اگرچہ اس نے اپنے نزدیک بہت نیک کام کیا ہے مگر چوں کہ وہ روپیہ اس کا نہیں شوہر کا ہے اور اس نے اجازت نہیں دی یا پوچھنے کے بعد بہ کراہیت دے دی (یعنی ناپسندیدگی کے ساتھ خوش دلی سے نہیں دی) اور قرینۂ و انداز سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ (خوش دلی سے اجازت ہے یا نہیں ) اس لیے خلاف شرع کام ہوا۔ پس ثواب بھی نہ ہوگا۔ بظاہر تو یہ کام بڑی ہمت کا معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے پر رحم کرنے میں اپنے گناہ گار ہونے کا بھی خیال نہ کیا۔ مگر خدا کے پاس بالکل قبول نہ ہوگا۔ ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے ہر حکم میں نہایت اعتدال و (انصاف) کیا ہے۔1