تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کون سا کام ہونے سے رہ جاتا ہے بلکہ جیسے مجھے اس سے راحت ہوتی ہے کہ وہ میری خدمت کرتی ہیں اسی طرح اس سے بھی راحت ہوتی ہے کہ ان کو راحت مل گئی اور وہ راحت سے ہیں۔ رات کو مجھ کو نیند کم آتی ہے تو گھر والوں کو سوتادیکھ کرخدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ان کو تونیند آرہی ہے ورنہ دوقلق (رنج) جمع ہوجاتے ایک اپنے نہ سونے اور نیند نہ آنے کا، اور ایک ان کا۔ پھر گھر سے چلنے کے وقت پوچھتا ہوں کہ کوئی ضروری کا م میرے متعلق تونہیں میں جارہا ہوں۔ اگر کہا کہ کوئی کام نہیں تو چلا آیا۔ اور اگر کہا کہ کوئی کام ہے توبیٹھ گیا مثلا کوئی خط ہی لکھوانا ہے۔ سو اس کام کوپورا کرکے چلا آیا۔ کھانا کھا کے فارغ ہوا اور پان کا جی چاہا تو پوچھ لیا کہ پان دان کہا ں رکھا ہے انہوں نے بتلادیا اس میں سے پان نکال کر کھا لیا۔ آج کل نوجونواں کا محاورہ ہے کہ بیوی کو رفیق زندگی کہتے ہیں ارے بھلے مانسو! رفاقت کا کوئی حق بھی ادا کرتے ہو؟کہ محض الفاظ ہی الفاظ ہیں عملی صورت سے تومعلوم ہوتا ہے کہ بے چاری کو فریق زندگی بنا رکھا ہے۔ (۱)حضرت تھانوی کا ایک واقعہ بیوی کے گر جانے سے نماز توڑنا : ابھی پرسوں کا واقعہ ہے کہ میں صبح کی سنتیں پڑھ رہا تھا کہ بڑے گھر سے آدمی دوڑا ہوا یہ خبر لایا کہ گھر میں سے کو ٹھے کے اوپر سے گرگئیں ہیں میں نے خبر سنتے ہی فوراً نماز توڑدی۔ یہاں توسب سمجھ دار لوگ ہیں مگرشاید بعض ناواقف لوگ اپنے دل میں اس وقت یہ کہتے ہوں گے کہ ہائے بیوی کے واسطے نمازتوڑدیا۔ بیوی سے اتنا تعلق ہے کہ خدا کی عبادت کو اس کے لیے قطع کردیا (توڑتا) بے شک اس وقت اگر کوئی دکان دارپیرہوتا وہ ہرگز نماز نہ توڑتا کیوں کہ اس سے جاہل مریدوں کی نظروں میں ہیٹی ہوتی مگر الحمد للہ مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ کوئی کیا کہے گا۔ اگر کسی کی نظر میں اس فعل سے میری ہیٹی ہوتی تو وہ شوق سے کوئی دوسرا شیخ تلاش کرلے۔ جب خدا کا حکم تھا کہ اس وقت نماز توڑدوتومیں کیا کرتا کیا اس وقت جاہلوں کی نظر میں بڑابننے کے لیے میں حکم خدا وندی کو چھوڑدیتا؟ ظاہر ہے کہ جب بیوی کو ٹھے (چھت) پر سے گری تو اس کی چوٹ کو شوہر ہی ہلکا کرسکتا ہے۔ اور وہی دریافت کرسکتا ہے کہ چوٹ کہاں لگی کہاں نہیں لگی۔ خصوصاًایسی حالت میں جب کہ گھر کے اندرسوائے ایک نا سمجھ بچی اور ایک معذوربڑھیا کے کوئی امدادکرنے والا بھی نہ تھا۔ اور امدادکرنے والے ہوں بھی تو کوٹھے سے گرجانا بعض دفعہ ہلاکت (اور موت) کا سبب ہوجاتا ہے۔ فوراً ہی کوئی تدبیر ہوجائے توزندگی کی آس ہوتی ہے اس لیے بھی مجھ کو فوراً جانا ضروری تھا۔ اس لیے میں نے شرعاًاس وقت نماز