تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اللہ تعالیٰ بے کس ومجبور اور شکستہ (ٹوٹے کمزور) دل کا تھوڑاساعمل بھی قبول فرمالتیے ہیں اور اس کے درجے بڑھادیتے ہیں۔ پس کیا تعجب ہے کہ جن عورتوں کو تم نے ان کی بے کسی اور بے بسی کی وجہ سے حقیر سمجھ رکھا ہے اللہ تعالیٰ کے یہاں زیادہ مقبول ہوں لہٰذا مردوں کو عورتوں کے معاملہ میں خدا سے ڈرنا چاہیے اور عورتوں کو اپنے مردوں کی اطاعت کرنا چاہیے۔ زبان درازی سے پیش نہ آنا چاہیے۔علماء اور اہل اللہ بیوی کے مریدنہیں قدر شناس ہوتے ہیں : جو لوگ دین دارہیں وہ (بیوی کے) احسان کی قدرکرتے ہیں۔ مولانا محمد مظہر رحمۃ اللہ علیہ کی یہ حالت تھی کہ ان کی بیوی بوڑھی ہوگئی تھیں مگر مولانا کو ان سے ایسا تعلق تھا کہ جب وہ ذرا بیمار ہوتیں تو مولانا فوراً مدرسہ سے چھٹی لے کر خوداپنے ہاتھ سے ان کی خدمت کرتے تھے۔ آج کل تو بعض لوگ بوڑھی بیوی سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ حالاں کہ تم نے ہی تو اس کو بوڑھی کیا ہے مگر مولانا کی یہ حالت تھی کہ نوکروں اور ماماؤں پر اپنی بیوی کی خدمت کو نہ ڈالتے تھے بلکہ مدرسہ سے چھٹی لے کرخودخدمت کرتے تھے۔ اس لیے توعلماء کو لوگ کو بیوی کا مرید کہتے ہیں مگر جی ہاں ! ان کا مرید ہونا تمہاری طرح پیر ہونے سے اچھا ہے تم بیویوں کے پیرہو۔ مگر ڈاکو پیرہو۔ اور اصل یہ ہے کہ مولوی بیویوں کے مرید نہیں بلکہ ان کے دل میں خدا کا خوف ہے حقوق العباد کے ادا کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، بیوی کے حقوق، نصوص (قرآن وحدیث) میں ان کی نظر سے گذرے ہوئے ہیں حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی معاشرت کا حال انہوں نے پڑھا ہے اس لیے وہ بیوی کے سامنے نرمی اور ملا طفت کرتے ہیں ان کو راحت پہنچاتے ہیں۔ بلکہ جتنا حضور ﷺ نے اپنی بیویوں کے ساتھ برتاؤکیا ہے اتنا تو کوئی مولوی کر بھی نہیں سکا اور اگر کوئی ویسا کرنے لگے تو نہ معلوم لوگ مریدزن (عورت کے مرید) سے بڑھکر اور کوئی خطاب دینے لگیں گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ حضرت عائشہ کے ساتھ ایک باردوڑے تھے۔ غرض! مولوی اس واسطے اپنی بیویوں کی خاطرزیادہ کرتے ہیں کہ ان کی نگاہ میں رسول اللہ ﷺ کی معاشرت ہے۔ پھر بیوی کی خاطرداری کرنے میں دنیا کی بھی بڑی مصلحت ہے اہل اللہ زن مرید نہ تھے بلکہ قدر شناس تھے۔ (التبلیغ جلد ۷ صفحہ ۶)اللہ والوں کاحال : اللہ والوں نے جو اپنی بیویوں کی بہت رعایتیں کی ہیں جن کو سن کرتعجب ہوتا ہے ان کا منشا ایسے ہی صفات تو ہیں کہ یہاں کی عورتوں کی رگ رگ میں خاوند کی محبت گھسی ہوتی ہے۔ اللہ والوں کی نظر عیبوں پر نہ پڑتی تھی بلکہ ایک خوبی پر پڑتی تھی جس کے سامنے سب