تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہا میں کم بخت کیوں ہوتی مجھ سے زیادہ تو کوئی بھی سعادت مندنہ ہوگی کہ مجھے تم جیسا شریف مردملا کمبخت تو تم ہوکہ تم کو ایسی عورت ملی۔ حکایت: اسی طرح کتابوں میں ایک مرد کی حکایت لکھی ہے کہ مرد تونہایت حسین تھا اور عورت نہایت بدصورت اور اس کے ساتھ وہ بدمزاج بھی تھی۔ آج کل ایسا مردہو تو ایک ہی دن میں طلاق دے کر الگ ہوجائے۔ مگروہ اللہ کا بندہ سب باتوں پر صبر کرتاتھا۔ کسی نے اس سے کہا کہ تم اس بیوی کو طلاق کیوں نہیں دے دیتے؟ کہانہیں میں طلاق کیو نکر دوں۔ بات یہ ہے کہ مجھ سے کوئی گناہ ہوگیا تھا خدا نے اس کی سزامیں مجھے ایسی بیوی دے دی۔ اور اس سے کوئی نیک کام ہوگیا ہوگا۔ اس کے صلہ میں خدا نے اس کو مجھ جیسا حسین مرددیا تومیں اس کاثواب ہوں۔ اور یہ میراعذاب ہے پھر طلاق کی کیا وجہ؟ توبزرگوں نے اپنے دلوں کو یوں سمجھالیا ہے۔ اور کبھی عورتوں کی بے عنوانیوں (اور بداخلاق وبدصورتی کی وجہ سے) ان کو اپنے سے الگ نہیں کیا اور ہمیشہ تحمل فرماتے رہے تو اگر بیوی کی واقعی خطابھی ہو۔ جب بھی اس سے درگذر کرنا چاہیے۔ اس تحمل سے دین کا بڑابھاری نفع ہوتا ہے اور بہت اجرملتا ہے۔کالی کلوٹی بدصورت بیوی پر صبر کرنے کی تدبیر : اجنبیہ عورت کی طرف میلان ہونے کاجو علاج حدیث میں مشغولی بالزوجہ آیا ہے (یعنی خوب صورت اجنبیہ عورت کی طرف طبیعت مائل ہو تواپنی بیو ی کے ساتھ مشغول ہوجائے) اس حدیث میں یہ ٹکڑابطورحلت کے ارشادہوا ہیڈ ان الذی معھا مثل الذی معھا یعنی جو شے اس عورت کے پاس ہے وہ اس کے پاس بھی ہے۔ مولانا محمد یعقوب صاحب نے اس کی عجیب شرح فرمائی تھی۔ ان حضرات کے یہ علوم مدون نہ تھے۔ فرماتے تھے کہ اشیاء متناولہ (جو چیزیں استعمال کی جاتی ہیں ) ان کی تین قسمیں ہیں ایک یہ کہ ان سے صرف رفع حاجت (یعنی حاجت پورا کرنا) مقصودہولذت مقصود نہیں۔ مثلاًپاخانہ کرنا۔ دوسرے وہ ہیں جن میں صرف لذت مقصود ہے۔ مثلاً پیاس نہ ہونے کی صورت میں نہایت عمدہ خوش بودراشربت پینا، جیسا کہ جنت میں ہوگا یہاں صرف لذت مقصودہے۔ تیسرے وہ جس میں دونوں سے تر کیب ہے یعنی لذت اور دفع حاجت دونوں مقصود ہیں اور اس کی پھر دوصورتیں ہیں ایک یہ کہ رفع حاجت غالب ہوجیسے طعام (یعنی کھانا کھانے میں ) دفع حاجت غالب ہے گولذت بھی مقصود ہوتی ہے۔ اسی واسطے دسترخوان کا عمدہ ہونا اور برتن کا صاف ہونا بھی مطلوب ہوتا ہے مگر ضروری نہیں۔ اور دوسری صورت یہ کہ لذت غالب ہو۔ جیسے جماع کرنے میں دفع حاجت بھی یعنی دفع فضلات منویہ وغیرہ (فاسد مادہ کا اخراج) لیکن زیادہ مقصود اس میں لذت ہے۔ توحضور ﷺ اس حدیث میں ارشادفرماتے ہیں کہ گوجماع میں زیادہ ترنفس کو لذت