تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نہایت راحت سے ہیں اور خوش ہیں اور کبھی تکرار اور لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا۔1 (1 ملفوظات: ص۱۴۱مناسب یہی ہے کہ شادی کے بعد بیٹا بہو ساتھ نہ رہیں : اس زمانہ میں مناسب ہے کہ نکاح ہوتے ہی جوان اولاد ماں باپ سے علیحدہ رہیں۔ اسی میں جانبین کو راحت ہوتی ہے۔ میں نے میرٹھ میں ایک گھرانہ کی حالت دیکھی کہ ان میں آپس میں ہمیشہ لڑائی تھی۔ اس گھر کے ایک مرد کو مجھ سے تعلق تھا۔ ان کا خط میرے پاس آیا، جس میں شکایت لکھی تھی کہ گھر میں روزانہ لڑائی ہوتی رہتی ہے۔ میں نے لکھا کہ تم اسی وقت کوئی مکان کرایہ پر لے کر الگ رہنے لگو۔ چناں چہ اس پر انہوں نے عمل کیا اور الگ مکان میں رہنے لگے۔ بس اسی روز سے امن و امان ہوگیا۔ میری رائے یہ ہے کہ نکاح کے بعد اولاد کا اور ماں باپ کا گھر الگ الگ ہونا چاہیے، مناسب یہی ہے۔1 (1 حقوق البیت: ص۴۸بہو کو مطیع و فرماں بردار کرنے کا تعویذ یہی ہے کہ اس کو الگ کردو : ایک شخص حضرت مولانا سے تعویذ لینے آیا کہ اس کی بہو اس کی اطاعت نہیں کرتی۔ فرمایا: اس کا تعویذ یہی ہے کہ اس کو اور اپنے لڑکے کو جدا کردو۔ پھر نہایت درجہ مطیع ہوجائے گی۔ اس زمانہ کی عورتیں آزاد پسند ہیں۔ نکاح کے بعد ہی اس ادھیڑ پن میں رہتی ہیں کہ کسی تدبیر سے ساس سسر سے علیحدہ ہوجائیں۔ ان کو اپنے مرد کے دو چار پیسے خسر کے ہزارہا روپے سے مرغوب ہوتے ہیں اور اپنے شوہر کے ساتھ رہ کر فاقہ کشی کو خسر کے گھر کی ریاست پر ترجیح دیتی ہیں۔ ان ہی خیالات کی وجہ سے خانہ جنگیاں (گھریلو لڑائیاں ) شروع ہوجاتی ہیں۔ 1 (1 دعوات عبدیت:۱۴/۲۸۲ ایک ہندو نے اپنے بیٹے اور بہو کی شکایت کی کہ وہ بہت تنگ کرتے ہیں۔ بہو کام کرکے نہیں دیتی، بیٹا دق و پریشان کرتا ہے۔ فرمایا: اس کا علاج یہ ہے کہ ان کو الگ کردو۔ وہ الگ رہیں گے اور تم الگ۔ بس سب ٹھیک ہوجائیں گے۔1 (1 حسن العزیزبدنامی کے خو ف سے علیحدہ نہ رہنا والدین سے الگ رہ کر ان کی خدمت کرتا رہے : فرمایا: بعض لوگ عرفی بدنامی کے خوف سے اپنے والدین سے جدا نہیں ہوتے۔ ان ہی میں شامل رہ کر ہمیشہ تکالیف اٹھاتے ہیں تو راحت او رنیک نامی تو جمع نہیں ہوسکتے۔ مگر راحت نیک نامی سے زیادہ ضروری ہے۔ لہٰذا اس زمانہ میں نکاح کے بعد یہ چاہیے کہ علیحدہ رہے اور جو کچھ بھی ہوسکے اپنی کمائی سے والدین کی خدمت کرتارہے۔1 (1 دعوات عبدیت:۱۳/۲۸۲