تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صفحہ ۴۵)آج کل فسخ نکاح کی صورت اور اس کا طریقہ : آج کل اس کی صورت یہ ہے کہ اگر ایسا واقعہ پیش آئے تو کسی مسلمان حاکم کے یہاں جس کو یہ اختیارات حاصل ہوں نالش کردو۔ اگرچہ وہ کافر کا مقرر کیا ہوا ہو۔ اگر اس کو ایسے اختیارات نہیں دئیے گئے تو حاکم بالا سے رجوع کرو کہ اس کو اختیار دے دیں۔ خواہ اسی ایک مقدمہ کے واسطے پھر اگر وہ فسخ نکاح کردے گا تو فسخ ہوجائے گا۔ اور ریاستوں میں قاضی کافسخ کردینا کافی ہے۔ غرض حاکم کے فسخ کرنے سے نکاح فسخ ہوگا۔ محض باپ کے کہہ دینے سے کہ میں راضی نہیں ہوں کچھ نہ ہوگا۔ سوال: جن مسائل میں قاضی کی ضرورت ہے ان میں انگریزی عدالت کا حکم وفیصلہ وہی حکم رکھتا ہے یانہیں ؟ الجواب: اگر صاحب اجلاس مسلم ہو وہ شرعاًقاضی ہے۔ (امداد الفتاویٰ جلد ۳ صفحہ ۳۳۴) فصل نمبر۱/۲شرعی قاضی نہ ہونے کی صورت میں دستورالعمل شرعی پنچایت اور اس کا طریقہ کار : اور جس جگہ مسلمان حاکم موجود نہ ہو۔ یا مسلمان حاکم کی عدالت میں مقدمہ لے جانے کاقانونا اختیار نہ ہو۔ یامسلمان حاکم قواعد شرعیہ کے مطابق فیصلہ نہ کرتا ہو تو اس صورت میں حتی الوسع لازم ہے کہ خلع وغیر ہ (یعنی مال دے کرطلاق حاصل کرنے) کی کوشش کرے، لیکن اگر خاوند کسی طرح نہ مانے یامجنون اور لاپتہ ہونے کی وجہ سے اس سے خلع وغیرہ ممکن نہ ہو۔ تومجبور اًمذہب مالکیہ کے مطابق دین دار مسلمان کی پنچایت میں معاملہ پیش کرنے کی گنجائش ہے، کیوں کہ مالکیہ مذہب میں قاضی وغیرہ نہ ہونے کی حالت میں یہ صورت بھی جائز ہے کہ محلہ کے دین دارمسلمانوں کی ایک جماعت جن کاعددکم ازکم تین ہوپنچایت کرے اور واقعہ کی تحقیق کر کے شریعت کے موافق حکم کردے تویہ بھی قضاء قاضی کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔ اور ضرورت شدیدہ اور ابتلائے عام کے وقت حنفیہ کے نزدیک دوسرے آئمہ کے مذہب کو اختیارکرکے اس پر فتوٰی دینا بھی جائز ہے، لیکن عوام کو خود ہی اپنی رائے سے جس مسئلہ میں چاہیں ایسا کرلینے کی اجازت نہیں۔ جب تک کہ محقق متدین علماء کرام میں سے متعددحضرات کسی مسئلہ میں ضرورت کا تحقق تسلیم کرکے دوسرے امام کے فتوے پرفتویٰ نہ دے دیں اور ضرورت وہی معتبر ہے جس کو علماء اہل بصیرت ضرورت سمجھیں۔ (الحیلہ الناجزہ)ضروری تنبیہات شرعی پنچایت کے ارکان اور ضروری اوصاف :