تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بھی عدت واجب ہے جب تک تین حیض اس وقت سے نہ آجائیں یا اگر حمل والی ہو تو جب تک بچہ پیدا نہ ہوجائے کسی شخص سے اس کانکاح جائزنہیں۔ اس سے اکثرلوگ احتیاط نہیں کرتے۔ ض ض ضباب نمبر ۱۷ فسخ وتفریق فسخ نکاح کے لیے بعض صورتوں میں قاضی شرعی کی ضرورت : بہت سے مسائل میں شرعاًحاکم مسلم کافیصلہ شرط ہے جس کو قضاء قاضی سے تعبیر کیا جاتا ہے (وہ صورتیں یہ ہیں )۔ (۱) زوجہ عنین (یعنی نامرد شوہر کی بیوی)۔ (۲) زوجہ مجنون (یعنی پاگل کی بیوی)۔ (۳) زوجہ مفقود (یعنی لاپتہ شوہر کی بیوی)۔ (۴) زوجہ حاضرمتعنت (یعنی ایسے شخص کی بیوی جس کا شوہر نفقہ وحقوق زوجیت کی ادائیگی نہ کرتا ہو)۔ (۵) زوجہ غائب غیر مفقود (یعنی ایسے غائب شخص کی بیوی جس کا پتہ معلوم ہے، لیکن نہ تو وہ بلاتا ہے نہ نفقہ دیتا ہے)۔ (ان سب) کے تمام مسائل میں قضائے قاضی شرط ہے۔ یعنی عورت یا اس کے اولیاء طلاق یا فسخ نکاح میں خودمختار نہیں بلکہ شرط یہ ہے کہ قاضی کی عدالت میں مقدمہ دائر کریں۔ اور قاضی باضابطہ تحقیق شرعی (شہادت وغیرہ کے ذریعہ) کرنے کے بعد حکم کرے۔ اس کے بغیر ان مسائل میں سے کسی مسئلہ میں بھی فسخ وتفریق نہیں ہوسکتی۔موجودہ حالت میں فسخ نکاح کے لیے دستورالعمل : ہنددستان میں بحالت موجودہ چوں کہ عام طور پر قاضی شرعی کاوجود نہیں اس لیے ان مسائل کے بیان کرنے سے پہلے ایسی صورتیں ذکرکی جاتی ہیں جوہندوستان میں میسر ہوسکتی ہیں۔ (۱) ہندوستان کی جن ریا ستوں میں شرعی قاضی موجود ہیں وہاں تو معاملہ سہل ہے۔ (۲) اور گورنمنٹی علاقوں میں قاضی شرعی نہیں ان میں وہ حکام جج، مجسٹریٹ وغیرہ گورنمنٹ کی طرف سے اس قسم کے معاملات میں فیصلہ کا اختیار رکھتے ہیں۔ اگر وہ مسلمان ہوں اور شرعی قاعدہ کے موافق فیصلہ کریں تو ان کا حکم بھی قضاء قاضی کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔ کمافی درالمختار ویجوزتقلد القضاء من السلطان العادل والجائر ولوکافرا۔ لیکن اگر کسی جگہ فیصلہ کنندہ حاکم غیر مسلم ہو تو اس کا فیصلہ بالکل غیر معتبر ہے اس کے حکم سے فسخ وغیرہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ لان الکافرلیس باھل القضاء علی المسلم۔ حتیٰ