تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہو۔ اور ایک چیز دونوں کے سامنے رکھ دو اور کہہ دوکہ جوپہلے اٹھالے یہ چیز اس کی ہے۔ یقین کامل ہے کہ یتیم کا ہاتھ نہیں اٹھے گا۔ وجہ یہی ہے کہ اس کا دل مرچکا ہے۔ (غوائل الغضب، صفحہ ۲۲۷)لڑائی جھگڑوں سے حفاظت کی عمدہ تدبیریں : u مردوں کو چاہیے کہ عورتوں کی باتوں پراعتماد نہ کیا کریں۔ اور عورتوں کوبھی لازم ہے کہ مردوں سے ایسی باتیں (جن سے غصہ آئے بیا ن نہ کیا کریں )۔ v جب کسی کی شکایت سنوتویہ سوچوکہ بیان کرنے والے نے ایک بات میں دس باتیں غلط ملا ئی ہوں گی۔ اگر ہم نے وہ بات اپنی آنکھ سے دیکھی ہوتی تو اگر تدارک کرتے (اور بدلہ لیتے) تو ایک بدی (برائی) کا بدلہ ایک کرتے۔ اور اب دس بدی کریں گے توکیا انجام ہوگا۔ یہ توایسا ہوا کہ جیسے ہمارا کوئی ایک پیسہ کا نقصان کرے اور ہم اس کے بدلہ میں دس پیسہ کانقصان کردیں۔ جب یہ مقدمہ حاکم کے پاس جائے گا توگویازیادتی پہلے اس کی تھی مگر اب ہم ملزم ہوگئے۔ مثلاََکسی کی شکایت سنی کہ اس نے ہماری غیبت کی ہے اور اس سے تم نے یہ بدلہ لیا کہ تم نے بھی غیبت کرلی تویہ بدلہ ہوگیا۔ اور مان لیاجائے کہ بالکل برابرسرابر کا بدلہ ہے یعنی کمیت میں برابرہے کہ ایک غیبت اس نے کی ہے ایک تم نے کرلی مگر اس کا کیا اطمینان ہے کہ یہ تمہارابدلہ کیفیت میں بڑھا ہوانہیں ہے۔ یا آئندہ نہ بڑھ جائے گا۔ اکثرایسا ہوتا ہے کہ جب کسی طرف سے برائی دل میں بیٹھ جاتی ہے تو انسان اس سے صرف زیادتی کے بدلہ ہی پر اکتفا نہیں کرتا۔ اور بدلہ لے کر اس کی برائی دل سے نکل نہیں جاتی بلکہ کینہ رہ جاتا ہے یاحسد پیدا ہوجاتا ہے۔ اور کینہ اور حسد غیبت سے کیفیت (درجہ) میں بہت زیادہ برا ہے۔ حسدکے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ حسد نیکیوں کو ایسا کھاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھاتی ہے تویہ برائی جو تمہارے دل میں اس غیبت کے مقابلہ میں پیدا ہوئی کیفیت میں بدرجہازیادہ ہے کہ تمہاری اور نیکیوں کوبھی غارت کر ے گی۔ یہاں قوت واہمہ سے کام لو۔ اور نفس کے خلاف سوچو کہ اگر ہم اس ایک غیبت کے بدلہ میں ان برائیوں میں پڑگئے تو کیسے برے نتیجے ہوں گے یہ خیال کرکے ذراڈرو۔ (غوائل الغضب، صفحہ ۲۲۴)خانگی فسادات گھر یلو جھگڑ ے سے بچنے کی عمدہ تدبیر : فرمایا خانگی مفسدات (گھریلو جھگڑوں ) سے بچنے کی ایک عمدہ تدبیر یہ ہے کہ چند خاندان (اور کئی عورتیں ) ایک گھر میں اکٹھے نہ رہا کریں۔ کیوں کہ عورتوں کا ایک مکان میں رہنا ہی زیادہ فساد کا سبب ہوتا ہے۔ (ملفوظات اشرفیہ، صفحہ ۲۷، الانسداد للفساد، صفحہ ۳۲۷)