تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ میرے کام میں تھوڑی آرہا ہے۔ میرے اوپر اس کی زکوٰۃ کیوں ہو اور بیوی بے فکر ہیں کہ میری ملک تھوڑی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کوئی بھی نہیں دیتا اور جب خاوند کھسک گئے تو اب بیوی صاحب کہتی ہیں کہ میری ہے۔ انہوں نے مجھے دے دیا تھا۔ عجیب بات ہے کہ زیور تو تمام عمر پہننے کے لیے بیوی صاحبہ موجود ہیں۔ غرض خرچ کے لیے تو خاوند مالک اور آمدنی کے لیے بیوی؟یہ خرابی کیوں ہوئی۔ صرف اس وجہ سے کہ ملک علیحدہ نہیں کی گئی اور اگر بنوانے کے بعد ہی تصریح کردی جاتی کہ کس کی ملک ہے تو یہ کوتاہی نہ ہوتی اور زکوٰۃ دینے کے وقت یہ حیلہ بھی ذہن میں نہ آتا کہ ہر چیز میری تھوڑی ہی ہے۔ بس معاملہ صاف ہونا چاہیے۔ اگر زیور بیوی کے ملک کردیا گیا تو زکوٰۃ اسی کے ذمہ ہوگی اور اگر عاریتاً (پہننے) کے لیے دیا گیا ہے تو زکوٰۃ خاوند کے ذمہ ہوگی اور یہ بات ہے کہ بیوی کی طرف سے بھی اس کی اجازت سے خاوند زکوٰۃ ادا کردے۔1 (1 التبلیغ: ۷/۴۵زیور کے مسئلہ میں ایک اور بڑی خرابی : ایک خرابی اور لیجیے کہ بیوی کو زیور ہزاروں روپے کے دیئے جاتے ہیں مگر یہ تصریح نہیں کرتے کہ یہ زیو رمہر میں محسوب (شمار) ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیوی کو سب کچھ دے دیا مگر مہر کا ایک پیسہ بھی ادا نہیں ہوا۔ لاکھ روپے خرچ ہوگئے مگر قرض دار کے قرض دار ہی رہے۔ جو حق العبد ہے اور حق العبد (بندہ کا حق) کا جو نتیجہ ہوتا ہے وہ آپ سن چکے ہیں کہ تین پیسہ کے بدلہ میں سات سو مقبول نمازیں چھین لی جائیں گی۔ پھر یہ کیا عقل مندی ہوئی کہ خرچ تو دین مہر (یعنی مہر کے قرضہ) سے زیادہ ہوگیا۔ مگر قرضہ ذمہ میں بدستور باقی رہا۔ ہاں جب دنیا میں مہر کا مطالبہ ہوتا ہے کہ بیوی مرگئی اور وارثوں نے مہر کا دعویٰ کیا یا طلاق کا اتفاق ہوا اور بیوی نے مہر کا دعویٰ کیا تو اب شوہر صاحب کہتے ہیں کہ یہ سب زیور میں نے مہر میں تو دیا تھا۔ کوئی اس سے پوچھے کہ خدا کے بندے خدا تو نیت کو جانتا ہے، بندوں کو نیت کی کیا خبر؟ تو نے کب کہا تھا کہ زیور مہر میں ہے؟ یوں تو کسی کو لاکھ روپے بخش دو۔ اگر اس کا ایک پیسہ بھی آپ کے ذمہ قرض ہے تو وہ تمہارے ذمہ سے ساقط نہ ہوگا۔ قرض جب ادا ہوتا ہے جب یہ کہہ کر دو کہ یہ قرض کی رقم ہے۔ اگر زیور مہر میں دینا ہے تو دیتے وقت تصریح کردینا چاہیے کہ یہ مہر میں ہے اور اس کا حساب لکھو یا ذہن میں رکھو۔ غرض گول مول بات کیوں رکھتے ہو۔ یہ حقوق کا معاملہ ہے۔ ایک پیسہ بھی رہ جائے توقرض ہی رہے گا۔ غرض جو کام ہو وہ باضابطہ ہو، گول مول نہ ہو۔1 (1 التبلیغ: ۷/۵۰اسلامی طریقہ : ۱۔ ہم کو ابتدائًا (شروع میں ) ہی لازم ہے کہ جب کوئی زیور یا کوئی چارپائی بنے یا کوئی چیز خریدی جائے تو اسی وقت زبان سے کہہ دیں کہ یہ سامان تمہارا ہے یا ہمارا بس