تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شخص کا چہرہ خوشی سے کھل گیا۔ واقعہ افک میں جب حضرت عائشہ ؓ کی براء ت میں وحی نازل ہوچکی تو ان کے والدین نے ان سے کہا قومی الیہ۔ یعنی حضور ﷺ کی پاس جاؤ اور ان کا شکریہ ادا کرو۔ حضرت عائشہ کی والدہ نے فرمایا قومی یا عائشتہ وقبلی۔ یعنی عائشہ اٹھو حضور کو سلام کرو۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: واللّٰہ لا اقوم الیہ وانی لا احمد الا اللّٰہ عزوجل ھوالذی انزل براء تی اوکما قال۔ بخدا میں آپ کے پاس اٹھ کرنہ جاؤں گی اور اپنے خدا کے سوا کسی کی حمدنہیں کرتی، کیوں کہ آپ نے تو مجھے آلودہ سمجھ ہی لیا تھا۔ خدا تعالیٰ نے مجھے بری کیا۔ واللہ میں تو نہیں اٹھتی نہ میں کسی کا شکریہ ادا کردں۔ سوائے اللہ تعالیٰ کے اسی نے میری برأت نازل فرمائی۔ ظاہر میں یہ کہنا سخت لفظ ہے کہ حضور ﷺ کی منہ پر کہتی ہیں کہ میں تو اٹھتی نہ میں کسی کا شکریہ ادا کروں مگر حضور ﷺ کو بالکل ملال نہ ہوا کیوں کہ ناز محبوبانہ تھا۔ اب مردوں کو سمجھنا چا ہیے کہ حضرت عائشہ ؓ کی یہ بات کسی بناپر تھی؟ اس کامنشا (اور مطلب) وہی ناز تھا جو بیوی کو تعلق دوستی کی وجہ سے شوہر پرہوتا ہے۔ اور شریعت نے عورتوں کی اس قسم کی باتوں پر جو وہ ناز میں کہہ ڈالیں کوئی مواخذہ نہیں کیا۔ اگر عورت کو نا ز کا حق نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ کو اس با ت پر ضرور تنبیہ فرماتے، کیوں کہ ظاہر میں یہ کلمہ نہایت سخت تھا۔ اور یہ احتمال توہوہی نہیں سکتا کہ حضور ﷺ احکام شرعیہ میں کسی کی رعایت فرمائیں۔ چناں چہ ایک عورت نے چوری کی تھی جس کا نام فاطمہ تھا حضور ﷺ نے شرعی حکم کے موافق ہاتھ کا ٹنے کا حکم دیا لوگوں نے سفارش کرنا چاہی اور حضرت اسامہ بن زید کو سفارش کے لیے تجویز کیا وہ حضور ﷺ کے محبوب اور محبوب زادہ تھے چناں چہ وہ بھولے پن میں سفارش کر بیٹھے حضور ﷺ بہت برہم ہوئے اور فرمایا کہ حدودمیں سفارش کرنا پہلی امتوں کو ہلا کت میں ڈال چکا ہے۔ اس کی بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ فاطمہ بنت محمد (ﷺ) بھی ہوتی (نعوذباللہ) تومیں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ (۱) اس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ احکام شرعیہ میں کسی کی رعایت نہیں کرتے تھے اور نہ کرسکتے تھے تو اگر حضرت عائشہ ؓ کا یہ قول خلاف شریعت ہوتا تو آپ ﷺ ان کی ہرگز رعایت نہ فرماتے اور ضرورتنبیہ فرماتے۔ پس ثابت ہوا کہ ان کا یہ کہنا کہ میں حضور ﷺ کی طرف اٹھ کر نہیں جاتی اور اپنے خدا کے سوا کسی کا شکریہ ادا نہیں کرتی خدا اور رسول کی حکم کے خلاف نہ تھا۔ توبیو ی کا شوہر سے وہ تعلق ہے جس میں اتنی بڑی بات کو خدا اور رسول نے گوارا کرلیا ورنہ یا توحضور ﷺ گر فت فرماتے یا اس پر کوئی آیت ضرورنازل ہوتی۔ چناں چہ ایک