تحفہ زوجین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گھروں میں ہمیشہ لڑائی ایسی ہی باتوں پر ہوتی ہے کسی خدا کی بندی کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ جب شکایت سنے تو اس بیچ کے واسطے کو قطع کرکے خود اس شکایت کرنی والی سے پوچھ لیں کہ تم نے میری شکایت کی ہے؟ مسنون طریقہ بھی یہی ہے کہ اگر کسی سے کچھ شکایت دل میں ہو تو اس شخص سے ظاہرکردے کہ تمہاری طرف سے میرے دل میں شکایت ہے اس شخص سے اس کا جواب مل جائے گا۔ اور اگر وہ شکایت غلط تھی توبالکل دفعیہ ہوجائے گا۔ اور سنی سنائی باتوں پراعتبار کرلینا اور اس پرکوئی حکم لگادینا بالکل نصوص (شریعت) کے خلاف اور جہالت ہے۔ اسی موقعہ کے لیے قرآن شریف میں موجود ہے: اجتنبواکثیراً امن الظن ان بعض الظن اثم ’’بدگما نیوں سے بچوبے شک بہت سی بدگما نیاں گناہ ہوتی ہیں۔ ‘‘ اور ارشادہے۔ ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث۔ ’’بدگمانی سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیوں کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے۔ ‘‘ ہم نے توتجربہ سے تمام عمردیکھا کہ سنی ہوئی بات شاید کبھی سچ نکلتی ہو۔ ایک شخص کاقول ہے کہ ایسے واقعات کی روایتیں کہ جن سے راوی (نقل کرنے والے) کا کچھ ذاتی تعلق بھی نہ ہو اور راوی بھی ایسا ہوکہ جھوٹ کا عادی نہ ہوتب بھی جب کبھی دیکھا گیا اور تحقیق کی گئی) توتمام باتوں میں چو تھائی بات بھی سچ نہیں نکلی۔ اور ان باتوں کی روایت کا توپوچھنا ہی کیا جن میں راوی کی ذاتی غرض بھی شامل ہے۔ خانہ جنگیاں (گھریلولڑائیاں ) جہاں کہیں ہیں وہ سب ان ہی بھنگنوں، کمہاروں وغیرہ (اس جیسی عورتوں ) کی رواتیوں کی بناء پر ہیں کہ اصلیت کچھ بھی نہیں ہوتی۔ کچھ حاشیے اس پر روایت کرنے والی لگاتی ہیں۔ اس سے یہ خیال پیدا ہوجاتا ہے کہ فلانی ہماری مخالف ہے۔ بس اس خیال و وہم سے کچھ حاشیے (مزیدباتیں اور بدگمانی) یہ سننے والی لگالیتی ہیں۔ بس اچھی خاصی لڑائی ٹھن جاتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے جنگل میں آدمی رات کے وقت اکیلا ہو اور اس کو شیر کا خوف ہو توجب وہ ایک طرف کو دھیان جماتا ہے توکوئی درخت اسے شیرمعلوم ہونے لگتا ہے پھرجب خیال کو ترقی ہوتی ہے تو اسی خیالی صورت میں ہاتھ پیر بھی نظرآنے لگتے ہیں اور سچ مچ کا شیر بن جاتا ہے۔ حالاں کہ واقع میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ صرف وہم کی کار گذاری ہوتی ہے۔ اس طرح سنی سنائی باتوں میں نفس اختراع کرتا ہے کہ اوّل توکچھ آمیزش نقل کرنے والے سے شروع ہوتی ہے پھر جس کے سامنے وہ خبر بیان کی گئی وہ پہلے سے عیب جوئی کے لے تیا رہوتی ہے۔ ذرا سا بہانہ پاکر سب اگلی پچھلی باتوں کر تازہ اور خیالات کو واقعات۔ اور حقیقت پر محمول کرلیتی ہیں۔ اب بنی بنائی شکایت موجود ہوتی ہے۔ (غوائل الغضب صفحہ ۲۲۴) عورتوں کی تودیکھی ہوئی باتیں بھی اس قابل نہیں کہ ان کو صحیح کہا جائے اکثرعورتیں اپنی دیورانی جیٹھانی وغیرہ سے اپنی چشم دید باتوں پر ناراض رہتی ہیں۔ اور جب ان کو