مسئلہ. رمضان شریف کے روزے ہر مسلمان پر جو مجنون اور نابالغ نہ ہو فرض ہیں جب تک کوئى عذر نہ ہو روزہ چھوڑنا درست نہیں ہے. اور اگر کوئى روزہ کى نذر کرلے تو نذر کر لینے سے روزہ فرض ہو جاتا ہے. اور قضا اور کفارے کے روزے بھى فرض ہیں اور اس کے سوا اور سب روزے نفل ہیں رکھے تو ثواب ہے اور نہ رکھے تو کوئى گناہ نہیں البتہ عید اور بقر عید کے دن اور بقر عید سے بعد تین دن روزہ رکھنا حرام ہے.
مسئلہ. جب سے فجر کى نماز کا وقت آتا ہے اس وقت سے لے کر سورج د-وبنے تک روزے کى نیت سے سب کھانا اور پینا چھوڑ دے اور مرد سے ہمبسترى بھى نہ ہو. شرع میں اس کو روزہ کہتے ہیں.
مسئلہ. زبان سے نیت کرنا اور کچھ کہنا ضرور نہیں ہے بلکہ جب دل میں یہ دھیان ہے کہ آج میرا روزہ ہے اور دن بھر نہ کچھ کھایا نہ پیا نہ ہمبسترى ہوئى تو اس کا روزہ ہو گیا. اور اگر کوئى زبان سے بھى کہہ دے کہ یا اللہ میں کل تیرا روزہ رکھوں گى یا عربى میں یہ کہہ دے کہ بصوم غد نویت تو بھى کچھ حرج نہیں یہ بھى بہتر ہے.
مسئلہ. اگر کسى نے دن بھر نہ تو کچھ کھایا نہ پیا صبح سے شام تک بھوکى پیاسى رہى لیکن دل میں روزہ کا ارادہ نہ تھا بلکہ بھوک نہیں لگى یا کسى اور وجہ سے کچھ کھانے پینے کى نوبت نہیں آئى تو اس کا روزہ نہیں ہوا. اگر دل میں روزہ کا ارادہ کر لیتى تو روزہ ہو جاتا.
مسئلہ. شرع سے روزہ کا وقت صبح صادق کے وقت سے شروع ہوتا ہے اس لیے جب تک صبح نہ ہو کھانا پینا وغیرہ سب کچھ جائز ہے. بعضى عورتیں پچھلے کو سحرى کھا کر نیت کى دعا پڑھ کر لیٹى رہتى ہیں اور یہ سمجھتى ہیں کہ اب نیت کر لینے کے بعد کچھ کھانا پینا نہ چاہیے یہ خیال غلط ہے. جب تک صبح نہ ہو برابر کھا پى سکتى ہے چاہے نیت کر چکى ہو یا ابھى نہ کى ہو.